اعتماد کا بحران

ایک ریاست کی وجود و بقا اور ترقی کا ضامن اس کے عوام کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پیچھے جو نظریہ کار فرما تھا یا جیسے ہمیں بتایا جاتا اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی نے عوامی اعتماد کے بحران کی پہلی بیج بوئی۔ یہ بحران مسلسل ایک مستقل بحران بنا رہا۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مختلف اعتمادی بحران جنم لیتے رہے لیکن یہ خلاء ہماری مقدر کی زینت بنا رہا۔

ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ مختلف ادوار میں مختلف گروہوں کی جانب سے مختلف اداروں پر اعتبار کے فقدان کا کھلم کھلا اظہار ہوتا رہا لیکن ایسا شاید کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی وقت میں اکثریتی عوامی حلقوں کی جانب سے کئی سارے اداروں پر اعتماد کی کمی کا اظہار ہوا ہو۔ پہلے کبھی آئین، کبھی عدلیہ، کبھی مقننہ، کبھی انتظامیہ (پولیس ہو یا فوج)، کبھی میڈیا، کبھی سیاست اور سیاستدان، کبھی حکمران، کبھی عوام، کبھی معیشت، کبھی معاشرت اور کبھی کبھی تہذیبی اقدار تنقید کی زد میں آیا کرتی تھیں۔ اس بار معاملہ کچھ الگ ہے۔ اس بار اعتماد کے بحران میں جس قدر شدت آتی ہوئی نظر آئ ہے ویسی شدت شاید ہی پہلے کبھی نظر آئی ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ اعتماد کی کمی کسی ایک پہلو سے یا ایک ادارے پر نہیں بلکہ اس حمام میں سب ننگے نظر آرہے ہیں۔

حالات اور عوامی رائے کے بغور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حالات اور صورتحال میں عوامی حلقوں کی جانب سے اعتمادی بحران اپنے عروج پر ہے اور کوئی بھی ادارہ یا حلقہ اس اعتمادی خلا کو پر کرنے میں بالکل ہی ناکام نظر آتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش بھی نہیں ہورہی۔

یقیناً اس کے پیچھے بہت سارے وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی اور نمایاں وجوہات آئین و قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ان پر عملدرآمد کی کمی اور بنیادی انسانی و شہریتی حقوق کی پامالیاں ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ یہ بحران نفرتوں کو جنم دے رہی ہے۔ نفرتیں جو ایک لاوا بن کر کسی بھی وقت آتش فشاں کی مانند پھٹ سکتی ہیں اور اپنے گرد سخت سے سخت اور نرم سے نرم چیزوں کو جلا کر راکھ کر سکتی ہیں۔ بے بسی اور بربریت دونوں ایک دوسرے کے لئے کھڈے کھود رہی ہیں جو کسی بھی وقت سانحے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سمجھیں کہ ضرورت اعتماد کے بحران کی نہیں بلکہ اس بحران کے بحران کی ہے۔ ریاست، عوام اور حالات سب کسی غائبانہ رحم کی منتظر نظر آتی ہیں۔

یہ شاہراہوں کے حادثے ہے مگر کسی کو خبر نہیں ہے

مجھے بچا لو، مجھے بچا لو

جون ایلیا

Print Friendly, PDF & Email