زندگی دھمال ہے

"دھمال” ہندوستانی فلمی صنعت کی دو ہزار سات میں بنائی گئی فلم ہے ۔ اندرا کمار کی ہدایت کاری تلے بنی یہ فلم سنجے دت، ارشد وارثی، رتیش دیش مکھ اور جاوید جعفری پر فلمائی گئی ہے ۔ فلم چار ایسے دوستوں کی کہانی ہے جو کیسا بھی کر کے پلک جھپکتے ہی دولت مند بننے کی حرص کے آگے بھاگے جا رہے ہیں ۔ امیر بننے کا وائرس انہیں نہ جانے کب اور کیسے لگا ہے، کسی کو کچھ خبر نہیں ۔ پر ان کی خیالی دولت کے تعاقب میں کوششیں بے حد احمقانہ ہیں ۔ آخر کار انہیں راستے میں ایک شخص کا حادثہ ہوا مل جاتا ہے ۔ جس سے ان پر عیان ہوجاتا ہے کہ دور کہیں کسی پارک میں زمین تلے خطیر رقم دبی مل سکتی ہے۔ اس کھوج میں لگے یہ بیچارے اپنی اوقات دکھاتے جاتے ہیں ۔ فلم میں ایک ایسا منظر ہے جس کا  تعلق  ہماری موجودہ ناسمجھیوں  سے کافی  مماثلت نظر آتی ہے ۔ ایک رات وہ دوست مل کر  اپنے ایک دوست کےابو کی گاڑی لے  کربھاگ جاتے ہیں ۔ آس پاس پولیس کے گھیرے سے بچ نکلنے کی کوشش میں ایک سنسان جنگل سے ہو تے ہوئے ایک خستہ پل  پہ پہنچ جاتے ہیں۔ اب ترکیب یہ جلد بازانِ اربعین ایسی مزیدار سوجھتے ہیں کہ؛ "لیں گاڑی اڑا نکالتے ہیں ” لیکن جونہی گاڑی پل چھوتی ہے پل مزید ٹوٹ جاتا ہے اور خلیج اور وسیع ہوجاتی ہے ۔ دوبارہ سے فاصلے اور گاڑی کی رفتار میں ریشو کلکولیٹ کرتے ہیں اور گاڑی کی رفتار ابھار کر اس اونچائی سے پھلانگتے ہیں کہ گاڑی دھڑام سے زمین پر آ پڑتی ہے اور جل کر راکھ ہوجاتی ہے ۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ کچھ ہو رہا ہے ۔ پر ہماری دھمال کوئی فلمی دھمال نہیں بلکہ ہماری حقیقی زندگی ہے ۔ ہم سب کو ایک عجیب نوع کی جلد بازی  ہے ۔ ہم جو بھی ہو سب سے زیادہ ہو، بے حد ہو، بے شمار ہو اور ابھی ہو، ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ ہماری عمروں اور موجودہ سہولیات میں اس جنگل میں ٹوٹے ہوئے پل کی کٹائی اور گاڑی کے اڑ نہ پانے کی کمزوری کا سا تضاد ہے ۔ ہم اپنی زندگی کی گاڑی چلائے پل تک پہنچتے ہی پل مزید ٹوٹ جاتا ہے ۔ ایسے میں کسی مجرب ترکیب کو سوچنے کی بجائے گاڑی اڑانے کا مضحکہ خیز کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے پورا "سر انجام ” ہو جاتے ہیں ۔ مشینی سہولیات لاریب اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات میں سے ہیں ۔ لیکن ان کے استعمال کرنے کے وقت کا نہ سہی مگر عمر کا انتظار کیا جائے تو جائز ہے کہ ہم دراز اور مستند زندگیاں جی پائیں ۔ اپنی جسمانی عمر اور ذہنی عمر کے درمیان تناسب کو پرکھنا موجود العصر ہر مرد و زن پر لازم ہے ۔ ایسے میں بسا اوقات جرائم یوں ہو جاتے ہیں کہ بزرگان وقت موجودہ دور کو موڑے یا پھر سامنے سے ہی دھکے دے پیچھے لے جانے کی تبلیغ کرنے آجاتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ وقت کا دریا جس سمت بہہ رہا ہے بہنے دیں، ہاں مگر کشتیوں میں دانائی کے نسخے اور مستند حکماء ضرور رکھے جائیں

Print Friendly, PDF & Email