ہم نہیں سمجھیں گے

مشاعرہ تہوار ہے یا یوں سمجھ لیں کہ مشاعرہ میلہ ہے ،جس میں طرح طرح کے اشعار کی دکانیں لگتی ہیں اور شعرا خواتين و حضرات مختلف دادوں کے دام اپنے اپنے کلام سامعین کے گوش گزار کرتے اور بعد از خاتمہٕ مال اپنی چادریں سمیٹے اٹھ اٹھ خود بھی سننے والوں میں آ بیٹھتے ہیں۔ اپنے اپنے ذوق مطابق لباس پہنے اور ذہن آٸی سوچوں کو من چاہے شعر کیے ہوٸے یہ شعرأ اس میلے میں اپنا سب کچھ پیٹھ پیچھے پھینکے محض شعراءہوتے ہیں۔ اپنے گھر بار ، رشتے ناطے ، گاٶں گلیاں، کام کاج، کھیتی باڑی، کاروبار،ہسپتال ، بازار، مسجد مندر ، میاں بیوی بچے، کھیل تماشے، لڑائی جھگڑے، دکھ درد ، ہنسی خوشی ، لالچیں، مفادات ، ڈر ،دھمکیاں، بھیڑ بکریاں، موٹر گاڑیاں ، فکر ، غم ، امیری ، غریبی، چھوٹا پن ، بڑا پن ، کمزوری ، طاقت ، مختصراً یہ کہ مشاعرہ پڑھتے شعرا اسی تہوار کے احاطے میں صرف اور صرف شعرأ  ہیں۔ لیکن ” اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا ” کسی شاعر کو ہم اگر مشاعرہ پڑھتے ہوئے دیکھیں یا سنیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا تو سارا اٹھنا بیٹھنا شاعری ہی ہے ۔ گھر نہیں ہے، خاندان نہیں ہیں، رشتے ناطے نہیں ہیں۔ دکھ درد ، غم خوشی ، ہنسی مسکان اور حیرانی پریشانی کے لمحے تو اس کو جانتے تک نہیں ہیں۔ سراسر گمراہی ہے۔ یہ شاعر مشاعرے میں ایک شاعر ہے۔ مشاعرے کے بعد معاشرے کا ایک فرد ہے ۔ اس کے اردگرد دائیں بائیں، یہاں وہاں معاشرہ ہے ، انسانوں کا معاشرہ ۔ ایسے میں اسے اس کے مداح ہونے کی دھمکیاں دے کر اس سے ہر جگہ ، ہر وقت شعروں کی ہی فرمائش کرنا نا انصافی کی انتہا ہے۔اگر ہم کسی کو چاہتے ہیں تو بجائے اس پر احسان کرنے کی چپ چاپ اپنی بے لوث محبت اس سے برقرار رکھیں۔ کیونکہ ہم اس کو چاہتے ہیں وہ ہمیں نہیں چاہتا ہے ۔ ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ خود کو قابو میں رکھیں۔ اپنی واہیات اپنی پسندیدہ شخصیت پر نہ برسائیں۔ ہو گیا نا بھائی ایک شخص ہم سے کوسوں دور بیٹھے اپنے فن سے کھڑے، لیٹے، بیٹھے، بھاگتے، کیسا بھی کر کے ہمیں حظ پہنچا رہا ہے تو کافی ہوا نا ۔ پھر اس کی ذاتی زندگی میں گھس کر ہم کیا تلاشتے ہیں؟لیکن یہ ہم کبھی بھی نہیں سمجھیں گے۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email