پریت نگرتریچ میر

زمین نے پہاڑ کو میر کا نام بخشا ہے یا پھر پہاڑ کے مرہون جنگل، پہاڑیاں، دریا، چشمے، آبشار اور کوہسار تریچ بنے ہیں، ایک بحث ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ "میر” اور تریچ دونوں موجود ہیں ۔ اور بے مثال موجود ہیں ۔اس وجود کو نیلے ہو کہ ابریں ہو، آسمان نے مانا ہے ۔ دور ہو یا پاس ہو، فاصلوں نے ماپا ہے، سر ہو کہ سبز کھیتوں نے ڈھانپا ہے ۔ لہلہاتی فصلوں نے، بل کھاتی ندیوں نے، گنگناتے چشموں نے، گھاس کے قالینوں نے، پھلوں نے اور پھولوں نے تریچ اور میر کے وجود کو شگفتگی، پائندگی، تابندگی، بے بدلی، بے مثالی، کشادگی اور سادگی کے چمکتاروں سے سجا کر رکھا ہے ۔

ہر دل کی خواہش ہوگی کہ کہیں کسی ایسی جگہ جا کے دھڑکے جہاں کی ہواؤں میں ملائم لہروں کے ذرات سانسوں میں اتر جاتے ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا  پریت نگر، میرے بچپن کا پریم اور میرے وجود کا ضامن میرا تریچ بلا شبہ وہی فردوس ہے جہاں ہر دل کو دھڑکنے کی آرزو ہوگی ۔ تریچ کا میر تریچ سے اس قدر ملا جلا رہتا ہے کہ کتابوں میں تریچمیر لکھا جاتا ہے ۔ ان دونوں کا تعلق اٹوٹ ہے ۔ تریچ اپنے میر سے اور میر اپنے تریچ سے حرف بھر کے فاصلے کو بھی ایفا کی بے حرمتی مانتا ہے۔ یہی تو وجہ ہوگی کہ گاؤں گاؤں وفا شعار، بے لوث، انسان دوست اور محبتوں کا مرکز ہے ۔ میرے گاؤں کے لوگوں کی انسان دوستی میری باقی دنیا سے وابستگی کی بنیاد ہے ۔ میری مٹی کے ہر ذرے نے مجھے مل کر رہنے، ہنسنے ہنسانے، اوروں کو بھی جینے دینے، انسانوں کی محبتوں کی سیڑھیاں چڑھے بنانے والے تک جا پہنچنے ملا کر عزت کمانے کے لئے عزت کرنے کا درس ہی دیا ہے ۔ تریچ کی سرزمین کو جغرافیائی اعتبار سے ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر پھر بوٹیوں کو گننا میری تحریر کا جز تک نہیں ۔

مجھے یہ بخوبی معلوم ہے کہ میرا گاؤں کہاں سے کہاں تک بچھا ہے، لیکن اس دفعہ مجھے یاد محض وہی حساس پہلو میرے گاؤں کے آ رہے ہیں جو مادہ کشیدہ دور حاضر کے مشین گزیدہ انسان کےخواب ہیں ۔ کمرہء جماعت کے ہزاروں نوع کی الجھنوں کا شکار طلباء جب جب میری سدا رہتی خوشی سے حسد کرنے لگتے تو سیدھا ملبہ چترال پر  ڈالتے ہیں، کہتے ہیں "سر چترال کے لوگ کیوں ہنس مکھ ہوتے ہو؟ ” دوسرا سٹوڈنٹ ایکدم سے جواب دے بیٹھتا ہے؛ "سر کیوں نہ ہنسے، چترال کتنی خوبصورت جگہ ہے، پتہ ہے میں کئی دفعہ گیا ہوں، لوگ، جگہ، نظام سب میں امن، محبت، بھائی چارہ اور انسان دوستی بے انتہا بھری ہے ۔” ایسے میں آنکھوں میں مستی چھا جاتی ہے چہرے پہ غرور آ جاتا ہے ” چترال کی اس آشتی میں میرے گاؤں کا بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت کردار رہتا ہی ہے ۔ ورکوپ اور رائین کی سر حدوں میں سے دریا تورکھو پار ہی نشکوہ کی ڈھلوان سر زمین تریچ یوسی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ بیشتر اوقات سوروَہت کا سینہ تان گاؤں سیاحوں کو اپنے درمیان سے گزارے گھر لے آتا ہے ۔ دروؤ لشٹ، ویمژد، نشکوہ اور سوروَھت وہ گاؤں ہیں جو مرکزی دروازے کا کردار نبھانے سجے رہتے ہیں ۔ درونِ در لشٹ لونکوہ، لونگول، وریژھنو، موژودور، پوہرت، اوث، اسلام آباد، میرغش، پارسنگ، سیمتیچھ، خورزوم، موڑیندور، زوندرانگرام، لشٹ ورچ، ڈوک ورچ ،پترامی، وریمون، شوچ اور شاگروم آباد ہے ۔ شاگروم کے انتہائی سرے پر بنے تالاب (منو ٹھڑ) تاریخ کی کوئی ان کہی ان سنائی کہانی لگتے ہیں ۔ جن کے عقب میں گاؤں کی کئی رسوم آج بھی سلامت جھانکتی ہیں ۔ تریچمیر، تریچنور، نوشاق اور اودرین کی چوٹیاں غیر ملکی سیاحوں کی اب بھی دل لگیاں ہیں ۔ زوندرانگرام مرکزی گاؤں ہے ۔ تعلیم کا تناسب یہاں کا باقی گاؤں سے  زیادہ ہے ۔ والی بال اور کرکٹ پسندیدہ کھیل ہے ۔ لڑکیوں کی تعلیم افسردگی کی حد تک نظر انداز ہے ۔ میرا پریت نگر دنیائے کھوار ادب میں کسی حد تک سب کے مساوی ہے۔

مختلف شعبوں سے وابستگی رکھنے والے افراد رات دن علاقے کی بہبود کیلئے کوشاں ہیں ۔ استاد، طلبہ ، دکاندار، زمیندار،، مستری، ترکھان حضرات، ڈاکٹر، دن کے وقت، ڈرائیور اور شکاری افراد راتوں کو لگے رہتے ہیں ۔ شکاریوں کا کسی حد تک بنتا بھی ہے کہ رتجگوں سے فائدہ اٹھائیں ۔مگر ڈرائیور حضرات کسی صورت "سحر ہونے تک ” گوارا کریں گے تو ہم تریچ کے باسی دوسری جگہوں میں "خوابیدہ” نہیں ٹھہرائے جایئں گے ۔ مگر مجھے اپنے علاقے کے ہر ہنرور پر ناز ہے کہ اپنا کوٹہ معاشرے کی بہبود کے صندوقچے میں ڈالتے جا رہے ہیں ۔

 تم سلامت رہو ہزار برس                 ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

Print Friendly, PDF & Email