ہم سندھی ہیں لیکن چترال کے سڑکوں کو دیکھ کر رونا آرہا ہے

موٹر بائیک پر حیدرآبادندھ سے پاکستان بھر کے سفر پر نکلنے والے د دوستوں نے شندور سے چترال شہر اور خصوصی طور پر بونی سے چترال شہر تک سڑک کی انتہائی ناگفتہ بہہ حالت اور خستہ حالی کو نوٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال یکم جون کو وہ اپنے شہر سے نکلنے کے بعد 4500کلومیٹر سے ذیادہ کا سفر طے کیا ہے لیکن اس سڑک پر تکلیف دہ سفر ان کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ ہوگا۔منگل کے روز چترال پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غلام قادر کھور اور آغا ظہور مگسی نے کہاکہ گلگت بلتستان سائیڈ سے آتے ہوئے ان کے خیال میں شندور سے چترال شہر روڈ کی جو تصویر ابھری تھی، وہ کسی ہائے وے یا مال روڈ سے کم نہ تھا مگر اپنی CD-70بائیک پر جس اذیت اور کرب کے ساتھ انہوں نے یہ دس گھنٹے کا سفر طے کیا، اس کا اندازہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھاکہ شندور پولو فیسٹول کا ملک بھر میں چرچا ہونے کی وجہ سے وہ اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ میں تین روزہ میلہ سجانے سے پہلے حکومت نے ضرور سڑکوں کا نظام بھی اس معیار پر لایا ہوگالیکن یہاں معاملہ ہی کچھ الٹ نکلا۔ انہوں نے کہاکہ بونی سے چترال شہر تک انہوں نے یہ عجوبہ بھی دیکھ لیا کہ تارکول اکھاڑ اکھاڑ کے سڑک کے دونوں طرف رکھے ہوئے تھے اور اس جگہ بڑ ے بڑے اور گہرے کھڈے پڑ گئے تھے جوکہ اس روڈ پر سفر کرنے والوں کی غذاب کا سامان بن گئے ہیں۔

موٹر سائیکل پر پاکستان بھرکی سیر پر نکلنے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حیدر آباد شہر سے وہ لاڑکانہ، گھوٹکی، بہاولپور، ملتان، لاہور، فیصل آباد، قصور، اسلام آباد، مری، مظفر آباد، کاغان، ناران سے نکل کر بابوسر ٹاپ سے گلگت بلتستان کے علاقے چلاس، گلگت، ہنزہ، خنجراب پاس، یاسین، غذر اور پھر شندور پہنچ گئے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان امن کا گہوارا ہے اور اس کے لوگ مہمان نواز ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طویل سفر میں جہاں سے بھی وہ گزرے، ہر جگہ اور ہر مقام پر مہمان نوازی کا اعلیٰ مظاہرہ دیکھااور مقامی لوگوں سے محبت ہی محبت دیکھا اور سندھ تہذیب کے اجرک کا احترام ملک کے ہر حصے میں پایا گیا جوکہ دل کو با غ باغ کرنے والی بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ امن وآشتی کا پیغام لے کر بلوچستان جانے کے بعد دوبارہ اپنے شہر حیدرآباد پہنچ جائیں گے

Print Friendly, PDF & Email