سیاحتی ضلع چترال کے سیلاب متاثرین ابھی تک حکومتی امداد کے منتظر

چترال(ذیل نمائندہ)اس سال جولائی کے 22 تاریح کو جو تباہ کن سیلاب آیا تھا اس نے چترال کا نقشہ بدل دیا تھا۔ سیلاب کا سطح اتنا بلند تھا کہ دریا سے پانچ فٹ اونچا یہ ریلہ بہہ رہا تھا جس کے نتیجے میں آس پاس کے مکانوں، دکانوں، مارکیٹ، ورکشاپ، کھڑی فصلوں، زیر کاشت زمین، باغات اور کھیتوں کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ سیلاب کی وجہ سے آبپاشی اور پینے کی پانی کی پائپ لائن اور نہریں بھی بہہ گئے۔ گولین سے تقریباً چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے لانے والا پینے کی پانی کا پائپ لائن ہر سال سیلاب کی وجہ سے تباہ ہورہا ہے۔ معلوم نہیں کہ محکمے میں تکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہے یا ایمانداری اور حلوص کی فقدان ہے۔ یہ پائپ لائن جب تعمیر ہوا تھا اسی وقت بھی ہماری ٹیم نے اس کا سروے کرکے محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس پائپ لائن کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائے مگر کچھ نہیں ہوا اور ایک سال بعد یہ سیلاب کا نذر ہوا۔ اس کے بعد یہ ہر سیلاب میں بری متاثر ہوتا ہے۔ پچھلے سال یہ پائپ لاین زیادہ تر دریا برد ہوا تھا اور ایک سال تک لوگ پینے کی پانی سے محروم تھے جس کی بحالی پر کروڑوں روپے تو لگ گئے مگر ناقص منصوبہ بندی اور غلط ڈیزائن کی وجہ سے یہ پائپ لاین ایک بار پھر سیلاب کی وجہ سے بری متاثر ہوا اور لوگ 22 جولائی سے لیکر آج لوگ پینے کی پانی سے محروم ہیں اور متاثرہ لوگ ایک ایک قطرہ پانی کیلئے ترستے ہیں۔ اس کے برعکس انگار غون شاہ شاہ واٹر سپلائی سکیم جو جرمنی نے چالیس سال پہلے بنا یا تھا وہ ابھی تک بحال ہے اور اس وقت پورے چترال ٹاؤن کو انگار غون والے منصوبے سے پانی فراہم کی جاتی ہے۔ چیف سیکرٹری خیبر پحتون خواہ ندیم اسلم چوہدری نے سیلاب کے فور! بعد چترال کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کو شائد متعلقہ محکمے یا ضلعی انتظامیہ نے غلط بیانی سے کام لیا تھا کہ پینے کی پانی بحال ہوچکی ہے اور لوگوں کو پانی مل رہی ہے حالانکہ سیلاب متاثرین ایک ایک بوند پانی کیلئے پچھلے دس دنوں سے ترس رہے ہیں اور گولین والا پائپ بند پڑا ہے۔

دنین میں سب سے بڑا گاڑیوں کا مستری حانہ ہے جہاں 120 دکانوں پر مشتمل پورے مارکیٹ میں متعدد ورکشاپ، سپئیر پارٹس کے دکان، سروس اسٹیشن اور ایک ڈرایونگ سنٹر بھی ہے۔ 22 جولائی کو سیلاب کا سطح اتنا بلند تھا کہ دریا کے کنارے ان دکانوں کو توڑ کر اس مارکیٹ میں پانی داحل ہوگئی اور یہاں سیلاب نے تباہی مچادی۔ لوگوں نے اپنی جانیں تو بچادی مگر یہاں کھڑی گاڑیاں اب بھی سیلاب کے ملبے میں پھنس کر دبے ہوئے ہیں اور ان کو نکالنے کا بھی کسی ادارے نے زحمت تک نہیں کی۔ مستری اسحاق اور اس کے والد کا کہنا ہے کہ ہمارا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے مگر ابھی تک ان متاثرین کو انتظامیہ کی جانب سے ایک کلو آٹا تک نہیں ملا ہے اور یہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بے یار ومدد گار ہوکر بلچے سے یہ ملبہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پورا مارکیٹ تباہ ہوا ہے ان کو کھانا بھی نہیں ملتا۔

آصف خان کا گھر دنین گول نالے کے اوپر واقع ہے ان کا کہنا ہے کہ رات کو تین بجے اچانک سیلاب آیا اور اس نے میری پوری دنیا اجاڑ دی۔ میرا ایک معذور بیٹا اور چند بیٹیاں ہیں ہم رات کو بھاگ کر کھلے آسمان تلے رات گزارا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے گھر کے اوپر دس فٹ اونچا ملبہ پڑا ہے اور ہم بلچے اور کودال سے اس کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ہماری بس کی بات نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے معذور بیٹے کی ادویات بھی سیلاب کے ملبے تلے دب گئے اور اب میں اس معزور بیٹے کیلئے ادویات بھی نہیں خرید سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب نے گویاں میرا سب کچھ تباہ کردیا۔ انتظامیہ کی جانب سے مجھے ایک حیمہ(ٹینٹ) اور بیس کلو آٹا اور تھوڑا خوراک کا سامان ملا ہے مگر میرے مکان دوبارہ بنانے کیلئے مجھے ایک پیسہ بھی نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنے پالیسی کے مطابق دس لاکھ روپے بھی دے تو مہنگائی کے اس دور میں یہ مکان اب پچاس لاکھ میں بھی تعمیر نہیں ہوسکتا۔

کمال الدین ایک تاجر اور سماجی کارکن ہے ان کا کہنا ہے اس مستری حانہ میں جتنے دکاندار اور مستری متاثر ہوئے ہیں وہ سارا دن سیلاب کا ملبہ ہٹانے میں مصروف رہتے ہیں مگر شام کو جب گھر حالی ہاتھ جاتے ہیں تو ان کے بچے بھی بہت مایوس ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی اصل وجہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا ٹھیکدار ہے جس نے بونی شندور سڑک کی تعمیر کے وقت بڑے بڑے پتھر اور ٹنوں کے حساب سے سارا ملبہ دریا میں گرایا جس سے دریا کا سطح بلند ہوکر اس تباہ کن سیلاب کا باعث بنا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ٹھیکدار کے حلا ف 21 ادروں کو درخواستیں دی ہیں اور ابھی ہم نے ایس ایچ او تھانہ چترال کو بھی تحریری درخواست دیا ہے کہ اس کے حلاف FIR یعنی مقدمہ درج کیا جائے مگر لگتا ہے کہ اس کے بہت لمبے ہاتھ ہیں ابھی تک اس کے حلاف کسی بھی ادارے نے کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔ انہوں نے چیف سیکرٹری خیبر پحتونخوہ سے اپیل کی ہے کہ این ایچ اے کا متعلقہ پراجیکٹ ڈایریکٹر، متعلقہ عملہ اور اس ٹھیکدار کے حلاف انکوائری کرکے سخت قانونی کاروائی کرے کیونکہ ان کی مجرمانہ غلفت کی وجہ سے نہ صرف تباہ کن سیلاب نے لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا بلکہ ماحولیاتی قانون کا بھی حلاف ورزی کرتے ہوئے آبی حیات کو بھی نقصان پہنچایا۔ ہمارے نمائندے نے متعلقہ تعمیراتی کمپنی، ٹھیکدار کے پراجیکٹ منیجر کو بار بار کال کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر اس نے ہر بار فون کو مصروف کرکے بات کرنے سے گریز کیا۔

سیلاب نے اورغوچ، کوغذی، کاری، اوچوشت، گہتک، دنین، چترال ٹاؤن، آیون اور دیگر علاقوں میں متعدد مکانات، دکانوں او ر زمین کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت لوگوں نے مکئی کا فصل بویا ہے اور ان کو سیراب کرنے والی ندی نالیاں سیلاب میں بہہ چکے ہیں اگر فوری طورپر آبپاشی کی یہ ندیاں بحال نہیں کی گئی تو حدشہ ہے کہ مکئی کی کھڑی فصل تلف ہوکر لوگوں کو ایک اور نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔

تحریک تحفظ چترالی کے صدر نعیم انجم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے بساط کے مطابق محتلف متاثرہ علاقوں میں جاکر متاثرین کے ساتھ ہاتھ بٹھایا اور کے ساتھ ان کے گھروں س ملبہ ہٹانے میں مدد کی۔ انہوں نے بھی حکومت کی بے حسی پر نہایت مایوسی کا اظہار کیا کہ اورغوچ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے نہ کوئی گیا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ کوئی امداد ہوا ہے۔

اوچوسٹ نالے سے متاثر ہونے والا معذور شحص غلام یوسف جو شیاقو ٹیک میں رہتا ہے اس نالے سے اس کا مکان مکمل طو رپر تباہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ میں معذور ہوں اور خود اپنے تباہ شدہ مکان سے ملبہ بھی نہیں ہٹا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے اہل حانہ سمیت کسی رشتہ دار کے گھر میں رہنے پر مجبور ہے مگر وہ کب تک دوسروں پر بوجھ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ابھی تک کوئی مدد نہیں ہوا۔ انہوں نے بھی مطالبہ کیا کہ اس کے ساتھ فوری طور پر مالی مد د کیا جائے تاکہ اپنے تباہ شدہ مکان کو دوبارہ تعمیر کرسکے۔

اعجاز ا حمد خان ویلیج کونسل کوغذی کا کونسلر ہے ان کا کہنا ہے کہ 2015, 2019, 2021 میں بار بار سیلاب آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل جب یہاں سیلاب آیا تھا اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ دار لوگ اور وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے اقلیتی امور پر معاون حصوصی وزیر زادہ کیلاش نے اپنے ٹیم کے ہمراہ کا دورہ کرکے اس علاقے کی حفاظت کیلئے بیس لاکھ روپے کا فنڈ رکھا ٹنڈر بھی ہو اور ورک آرڈر بھی جاری ہوا مگر عملی کا م ابھی تک نہیں ہوا اور وہ صرف زبانی جمع خرچ تھی ا ن کے اس جھوٹے وعدے اور اعلان کی وجہ سے ہم نے کسی دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے رجوع بھی نہیں کیا اور PTI والوں نے بھی فنڈ فراہم نہیں کیا اور کام نہیں ہوا جس کا ہم بھی تک حمیازہ بھگت رہے ہیں اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں تو ہم کسی اور ادارے سے مدد مانگتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نالے میں کئی سال پہلے ایک چٹان نما پتھر آکر ٹھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہر سال اس کی وجہ پانی رک کر تباہی کا باعث بنتا ہے۔ متاثرہ لوگوں نے یہ بھی شکایت کہ حکومت نے ہنگامی صورت حال کا علان کرتے ہوئے ایمرجنسی تو نافذ کی ہے مگر ہم خود ہی اپنے تباہ شدہ مکانوں سے ملبہ ہٹارہے ہیں اور ہمیں کوئی مشنری وغیرہ فرہم نہیں کی گئی۔ ان متاثرین نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ فوری طور پر مالی طور پر مدد کیا جائے تاکہ یہ اپنے تباہ شدہ مکانوں کو دوبارہ تعمیرکرکے اپنے بچوں کو سرچھپانے کی جگہہ فراہم کرے اور ساتھ ہی آبپاشی اور آبنوشی کی تباہ شدہ پائپ لاین اور ندیاں بھی بحال کیا جائے تاکہ ان کو پانی کی فراہمی بھی یقینی بنایا جاسکے۔

Print Friendly, PDF & Email