جیو تو سر اٹھا کے جیو

کائنات حادثاتاً یا اتفاقاً وجود میں نہیں آئی ہے، بلکہ اس کے بنانے اور سنوارنے میں اس ذات کا ہاتھ ہے، جو تمام تعریفوں کا حقدار ہے اور اسی نے جو راستہ اختیار کرنے کو فرمایا ہے، سب کی بھلائی اور نجات اس میں پوشیدہ ہے. ہمیں اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہیےتاکہ دین و دنیا میں فلاح نصیب ہو، لیکن آج کل معاشروں میں جو نامناسب رویہ چل رہا ہے آپ سب کی نظروں کے سامنے ہے. کیا دکھائے ہوئے راستے پر نوع انسانی گامزن ہے یا نوع انسانی خود ہی اس راستے کاراہزن ہے؟ اگر گامزن ہے تو سر اٹھا کے چلنا اس کا حق ہے ہے اور اگر راہزن ہے تو اسے سر اٹھا کر چلنے کی بجائے سر جھکا کر چلنا زیادہ مناسب ہو گا. مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سر اٹھانا جن کے شایان ہے وہ سر جھکا کر چل رہے ہیں، اور جنہیں حقیقتاً جھکنا ہے وہ اپنا سر اٹھا کر چل رہے ہیں. درحقیقت زندگی گزارنے کا جو نظام خالق کائنات نے وضع کیا ہے وہ ہر صاحب زندگی کے لیے راحت وسکون کا سبب ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صاحبان زندگی راحت وسکون کہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ابتدا سے ہی یہی دو نظام چلے آرہے ہیں. ایک نظام کے پیچھے رحمان کی رحمت ہے اور دوسرے کے پیچھے شیطان کی زحمت ہے.

آج کی دنیا کو بھی اگر اس تناظر سے دیکھیں گے تو بالکل یہی صورت حال آنکھوں کے سامنے گردش کرتی ہوئی نظر آئے گی . اہل دنیا دو متضاد خیالات لیے زندگی گزار رہے ہیں. اسی بنا پر آج دنیا عجیب مرحلے سے گزر رہی ہے. ہر آدمی دنیا کے پیچھے سرگرداں ہے اور دولت کے لالچ میں غلط راستوں پر رواں ہے. یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے سکون نہیں ہے. سکون کیسے ملے؟ ہر شخص اپنی دہکتی ہوئی آگ میں جل رہا ہے اور دوسروں کو بھی جلانے کی کوشش کر رہا ہے.. ایک چہرے پر ہزار چہرے بناتا ہے، نتیجتاً خود فریبی کے جال میں ایسے پھنس جاتا ہے کہ نکلنے کا راستہ ہی ملنا محال ہوجاتا ہے. تعصب کے دہکتے ہوئے کوئلے پر انسان تڑپ رہا ہے، منافرت نے اس کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے. مسکراہٹ غم میں اور خلوص فریب میں بدل گیا ہے. زندگی کا یہ بھیانک روپ اگر اس رفتار سے چلے تو زندگی ،زندگی نہیں اجیرن بن جائے. ایسے طرزِ زندگی اختیار کر نے والے اپنے آپ کو ا نسان کیوں کہلائیں؟ سوچنے کا مقام ہے. خود ہی اپنے اصلاح نہیں کریں گے تو ہمارا اصلاح کون کرے گا؟ اپنا اصلاح ہم تب کرسکیں گے جب ہم کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے.

خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے. اور ایک مناسب نظام زندگی سے نوازا ہے. کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کو برا بھلا کہے،اور پست دکھا نے کی کوشش کرے. رنگا رنگی زندگی کی خوبصورتی ہے بلکہ اس سے آباد یہ دھرتی ہے. یہ ہستی سے منسلک ایک لازمی جزو ہے. یہ قدرت کا منشور اور فطرت کا دستور ہے. انسان جب بھی قدرت اور فطرت کے برخلاف کام کرتا ہے اپنے تباہی کو خود ہی دعوت دیتا ہے. موجودہ دور کے یہ مصائب بھی انہی اعمال کا نتیجہ ہیں. انسان کے سامنے انسان کی قدر نہیں ہے. خدا کا فرمان ہے کہ "ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے.” جبکہ آج کل تو پورے انسانیت کو راکھ کرنے کے برے عزائم چل رہے ہیں. سکون کا نام و نشان اور خوشی کا گمان نہیں رہا. نتیجے کے طور پر قدرت کا غضب بھی زمینی و آسمانی آفتوں کی صورت میں بتدریج نمودار ہو رہے ہیں. اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تاکہ انسانیت کے دائرے سے ہٹ کر حیوانیت کے حلقے میں شامل نہ ہوجائیں!

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email