خونِ جگر ہونے تک

متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان میں جو ناول تخلیق ہوئے ان میں فضل کریم فاضلی کے ناول خونِ جگر ہونے تک کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی کہانی تقسیم سے پہلے کے بنگال کے غریب دیہاتی زندگی کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کے بنگالی دیہاتی معاشرے، قحط، مصائب اور سیاسی اور نظریاتی چپقلشوں کی داستان ہے۔ کہانی کا اسٹیج گھوڑا مارا نامی ایک گاٶں ہے جس پر افلاس اور بیماریوں سے دم توڑتےانسانوں، گھاٶ کھاتی روحوں اور خود غرضی، لالچ اور بےحسی کی موجوں میں ڈولتا ڈوبتا اخلاقی اقدار کے سفینے کی کہانی سجتی ہے۔ گھوڑا مارا تیسری دنیا کا ایک پسماندہ معاشرہ ہے جو نووارد سیاسی، سماجی، نظریاتی اور فطری تغیرات کا سامنا کرنے  کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار جمعدار صاحب ہے۔ بھوک، مصائب، انسانی ہوس اور نت   نئے نظریات کی وجہ سے یہ کردار اندرونی تذبذب اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک طرف جلودھر اور مخلص کے نظریات ہیں جن کی افادیت پر اس وقت کے حالات مہرِ تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مدافعت میں جو قوت برسرِپیکار ہے اس کا منبع درونِ ذات کی گہرائیوں میں واقع ہے۔ ناول میں افلاس کی دو صورتیں ایک دوسرے سے لپٹی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک طرف بھوک اور غربت کا اثر جسموں پر ہو رہا ہے تو دوسری طرف روح اور اخلاقی قدروں پر۔ جیسے جیسے قحط کی وجہ سے انتڑیاں سکڑتی، پیٹ پیٹھ سے لگتے اور ہاتھ پاٶں سوجتے جا رہے ہیں، ویسے ہی کرداروں کے روحانی خدوخال واضح ہو تے جاتے ہیں۔ آفات و مصائب بیرونی دنیا میں مصائب کا بازار گرم کیے ہوئےہیں مگر ساتھ ساتھ انسانوں کی روحانی، اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں کی تعمیر و تخریب میں بھی لگے ہیں۔ یہ اٹھتی بنیادیں کہانی کے اختتام پر مکمل طور پر نمایاں ہوچکے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں جمعدار اور پھول محمد سمیت کئی ایک چھوٹی موٹی انسانی کمینگیوں اور خامیوں کے حامل دیہاتی لوگ ہیں مگر کہانی کے کینوس پر اترنے کیساتھ ساتھ ان کے کردار اور فکر میں پختگی آتی رہتی ہے۔ گویا شروع میں سب ایک چوراہے پر مجتمع ہیں مگر بدلتے حالات کیساتھ ساتھ وہ اپنے لیے منزلوں کا تعین کرتے ہیں اور اپنی راہ لیتے ہیں۔ کہانی میں پیش آنے والے واقعات جمعدار کے لیے ٹریجک ضرور ہیں مگر کہانی کا اختتام ان کے لیے ٹریجک نہیں۔ انہیں اس ساری ٹریجڈی میں مات ہونے کے بجائے  ان کے ہاتھ زندگی اور اس کے مصائب کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک نیا زاویہ آتا ہے۔ بُرے دنوں میں اسکا گھر بار لٹ جاتا ہے۔ ان کا اکلوتا اور جان سے عزیز تر بچہ چھانو میاں ماں سمیت افلاس اور وبا کی نظر ہوجاتا ہے۔ پھر ان کا ہمدم دیرینہ نوجوان پھول محمد جان سے گزر جاتا ہے۔ حالات انہیں سرکاری غریب خانے پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ مرجھانے کے بجائے زندگی کی اذان بن کر گونجتا ہے اور موت اور شکست کے خلاف میدان میں اتر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جس موضوع کو اس ناول نے اپنی گیرائی  میں سمونے کوشش کی ہے وہ انگریزی استعماریت، عالمی سیاست اور ان کا تیسری دنیا کے ایک افلاس زدہ معاشرے پر اثرات ہیں۔ ایک عالمگیر جنگ کےنقوش ہی نہیں مٹے کہ دوسر ی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ نوجوان نئے  نظریات میں صدیوں کے جبرواستحصال سے نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ دوسری جانب حاکم اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔ ایسے میں شاطر لوگ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں مگر غریب عوام اس تمام گہما گہمی کے بیچوں بیچ کھڑا ہے۔ ہر کوئی انہیں ہانکتا اپنے باڑ میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے سلگتے پیٹ، بیٹھتی سانسوں اور ڈوبتی رگوں کی شاید ہی کسی کو پرواہ ہو۔ ان حالات کی داستان مصنف بغیر کسی غیر حقیقی رجایت کا سہارا لیے بیان کرتا ہے۔ یہ ناول اپنی زبان میں نہایت ہی سلیس ہے۔ اس حوالے سے اس میں کوئی  انفرادیت نہیں۔ البتہ جو چیز اسے اردو کے لازوال ناؤلوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے جس کہانی کا انتخاب کیا ہے اسے اس کی روح کے ہمراہ قاری تک پہنچانے میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کہانی کیساتھ اس سے بڑا انصاف اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ فکشن نگاری کی پیچیدگیاں اپنی جگہ لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ کہانی کو اس کی روح کیساتھ پیش کیا جائے ۔ بعض اوقات فکشن نگار مرصع نگاری کے خبط میں کہانی کی روح گنوا بیٹھتا ہے۔ مگر اس ناول میں کہانی کی روح موجود ہے جو پڑھتے ہوئے  قاری کے اندر حلول کرجاتی ہے اور قاری کی رگوں میں دوڑنے، سینے میں دھڑکنے اور آنکھوں سے چھلکنے لگتی ہے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email