مڈل کلاس اور طاقت کی کشمکش

انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ طاقت کا کھیل بے رحم ہوتا ہے۔ طاقتور طبقے آپس کی رسہ کشی میں جذبات کا نہیں بلکہ عقل کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک خیر و شر کا پیمانہ صرف طاقت کا حصول اور اپنا حصہ محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہوتی ہیں۔ کسی کی بہو کسی گھرانے سے تو کسی کا ماموں کسی اور گھرانے کا ۔ ظاہری بات ہے کہ بڑے گھرانوں کے رشتے مڈل کلاس میں تو نہیں ہوتے، وہ اپنی کلاس کے خاندانوں سے منسلک ہو جاتے ہیں ۔ وہ کبھی بھی مستقل دشمنیاں نہیں پالتے۔ ان کو پتہ ہے کہ طاقت کا توازن بدلتے دیر نہیں لگتی اس لیے وہ مفاہمت کے دروازے کھولے رکھتے ہیں۔

انسان ہوں یا جانور سب نے سیکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے جھتوں کی صورت میں رہنا ضروری ہے۔ اور اپنے ہی جھتے میں شکار نہیں کرتے ۔ انہیں مل کے اپنی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اورانکا مفاد مڈل کلاس پہ حکومت کرنے سے وابستہ ہے۔ وہ کھبی بھی اپنے سے نچلے طبقات کو اپنے برابرحقوق اور مراعات دینے کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کبھی بھی وہ ان معاملات کو طاقت کے کشمکش کا محور نہیں بناتے جن سے عدل، مساوات، قانون کی حکمرانی، رشوت خوری، زخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور بھوک کو کم کرنے میں مدد ملے، یا معیاری تعلیم ، صحت ، اور برابر کے حقوق عام لوگوں کو میسر ہوں ۔ اس لیے ان کی آپس کی لڑائیوں کا محور جذباتی نعروں، گروہی نفرت ، عقیدے کا استعمال، اور مڈل کلاس لوگوں کے جذبات اور خوابوں بھرے کھوکھلے نعرے ہوتے ہیں۔

 مارکس کے بقول مجھ جیسے مڈل کلاس لوگوں کے پاؤں دلدل میں اور نگاہیں آسمان پر ہوتی ہیں، ہم مڈل کلاس لوگ زندگی کے ستائے ہوتے ہیں۔ جس تعلیمی نظام سے ہماری تربیت ہوتی ہے وہ ہم سے سوچنے سمجھنے ، تشکیل ذات اور زندگی میں معنویت ڈھونڈنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے اور ہمیں روٹی کے چند ٹکڑوں کے حصول اور غیر حقیقی خوابوں کا قیدی بناتا ہے۔ کسی طاقتور افسر ، منصف، وزیر، عالم پنڈت یا مشیر، کے ساتھ خود کو منسلک کرکے ہم اپنے اندر موجود طاقت کے کھوکھلے پن کا مداوا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم شاطر مگر طاقتور اقلیت کے فریب میں آتے ہیں اور طاقت کے کھیل کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ طاقت کے اس کھیل میں بعض اوقات ہماری حیثیت بلکل اس کبوتر کی سی ہوتی ہے جس کو عقاب کا شکار کرنے کے لیے شکاری مچان پر باندھ دیتا ہے۔ اور بندھے ہوئے کبوتر کا شکار اگر شاہیں نہ بھی کر لے تو کوئی ضمانت نہیں کہ موقع غنیمت جان کے کوئی ، چلاک لومڑی ، بلی یا گدھ اسکا شکار نہ کر لے۔ ہمیں طاقت کی غلام گردشوں اور محلاتی بے رحمی کا علم نہیں ہوتا۔ ہم طاقت کے کھیل کو اپنے آفس ، محلے یا گلی کی سیاست جان کر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن جاتے ہیں۔ ہمیں یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ہم وقت کے سقراط ہیں اور ہم دنیا بدل دینگے۔

اوپر سے سوشل میڈیا اور رابطوں کی آسانی نے ہمیں طاقتور ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن آج کی دنیا اور اسکا طاقت کا نظامِ بہت پیچیدہ ہے۔ اسکے بہت سارے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اور مختلف سٹیک ہولڈرز کی جانب سے بانت بانت کے بیانیے گھڑے جاتے ہیں اور بیانیے کی لڑائیوں میں موت ہمشہ سچ کی ہوتی ہے ۔ دیکھتا کچھ ہے، ہوتا کچھ ہے اور نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے۔ ایندھن عام انسان بنتے ہیں اور فاتح کوئی ایک فرد ، گروہ یا ادارہ نہیں بلکہ طاقت کا سسٹم ہوتا ہے جس کے بہت سارے سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔

پر امن سیاسی جدو جہد لازمی ہے ، ہمیں جمہوریت، قانون کی حکمرانی ، اور عدل وانصاف کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن عقل کا استعمال اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ، تاکہ ہماری آئیڈیلزم  کی توہین نہ ہو اور ہم استعمال نہ ہوں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email