روایت سے جدیدیت تک

نانا کا اگایا ہوا ناشپاتی کا درخت جس کے سائے میں میر ا بچپن گزرا ۔ ستمبر کے پہلے ہفتے نانی ناشپاتیاں چن چن کے سٹور میں رکھ دیتی۔ اکتوبر تک لکڑی کے ایک ٹوکری میں پڑے ناشپاتی اور پک کے نرم پیلے اور رسیلے ہو جاتے۔ کھیل سے تھک ہار کے آتے اور سٹور میں رکھے ناشپاتیوں سے پیٹ بھرتے تھے۔ کبھی کبھی 23 اکتوبر سالگرہ کی شب بیداریوں میں انہی ناشپاتیوں کا تبرک ہوتا ۔ آج تقریبا 27 سال بعد ماں نے دوبارہ ناشپاتیاں بھیجی ہیں۔ وہی حلاوت ، وہی رس ، وہی محبت ، وہی خوشبو ۔ نہ ماں بدلی نہ اس کا پیار نہ ناشپاتیاں، لیکن آج جب ناشپاتیوں کا ذائقہ چکا تو ایسا لگا جیسے میرا بچپن لوٹ آیا ۔

خود کو تصور کے آیئنے میں دیکھا تو محسوس ہوا کہ سب کچھ وہی ہے صرف میں، میں نہیں رہا۔ جس طرح ہنزہ کے پہاڑوں سے نکلنے والے ٹھنڈے میٹھے پانی کی ندیاں شمال کو چھوڑ کر بہنے کی فطرت سے مجبور ، چٹانوں سے سر ٹکراتی منہ زور لہروں کی شور میں ایک لا حاصل سفر کرتے جنوب کی کھیت کھلیانوں اور میدانوں میں جذب ہو جاتے ہیں اور اپنا وجود کھو دیتے ہیں ، میں بھی 27 سال سے مسلسل سفر میں ہوں۔ میرے جیسے کتنے اور لوگ سفر میں ہیں۔

 ہر صبح ہماری وجود سے امید ، ارمان ، خواب ، رنگ، خوشبو، نغموں ، اور روشنیوں کے کتنے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اور دن بھر شہر کے شور ، نامانوس بھیڑ ، دفتر کی دیواروں اور محلے کی کنکریٹ کی جنگل سے ٹکرا ٹکرا کر شام تک پردیس کی صحرا میں جذب ہو جاتے ہیں ۔ جب ہنزہ سے نکلا تھا تو ماں نے گلے لگا کہ کہا تھا کہ پتہ نہیں کب تم واپس آؤگے ، اور آج 27 سال بعد بھی اسکا جواب مجھے معلوم نہیں۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر روٹی ہم گاؤں والوں کی پاؤں کی زنجیر نہ ہوتی ، ہم سب کے لیے اپنے علاقے میں بہتر تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع ہوتے۔ اس سے بڑے شہروں پہ آبادی کا دباؤ بھی کم ہوتا اور معشیت بھی Diversify ہوتی ، گھریلو انڈسٹری اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جاتا۔ کتنا اچھا ہو کہ چیری کے کھلنے کا موسم لوٹ آتا ، صبح کی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے آنکھ کھلتی ، ٹن کے کسی قریبی چھت پہ بارش کے قطروں کے گرنے کی آواز سے آدھی رات کو آنکھ کھل جاتی، اسپندر اور گل کی خوشبو شام کو مہکاتی ابو میں اور میرا بیٹا تین نسلیں اپنی کھیت کھیاریوں کو پانی دیتے، اپنی سبزیاں خود اگاتے ، اور رات کھانے کے بعد اماں ناشپاتیاں دیتی ، اور چاندی راتوں میں ویب سیریز دیکھنے کی بجاے بچوں کو آنکی دادی اماں کہانیاں سناتی ۔

لیکن شاید ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ کیونکہ جس ہنزہ کو میں نے بچپن میں دیکھا تھا اب وہ ہنزہ وجود نہیں رکھتا ۔ اب میرا گاؤں بھی ایک کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ بڑے بزرگ جو ہماری شاندار روایات، اور اقدار کے مجسم نمونے ہوتے تھے وہ نسل ختم ہو رہی ہے ۔ نئ نسل ایک شناخت کے گہرے بحران سے نبرد آزما نظر آرہی ہے۔ ایک طرف ان کی تاریخ اور ماضی کی روایتیں ہیں اور دوسری جانب جدید زندگی کی رونقیں ہیں۔ ترجیحات تبدیل ہو رہیں ہیں ، اور مجھ جیسے کھوے پردیسی (اوالومشو) جب واپس جاتے ہیں تو اپنے ہی علاقے میں ایک اجنبیت محسوس کرتے ہیں ۔

جدیدت کے تجربے نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس نے قبائلی اور فطرت سے قریب تر معاشروں میں rapture پیدا کیا ہے۔ کیرن آرم سٹرانگ کے بقول "مارکیٹ کی طاقتوں کے تابع اس تبدیلی کو سمت دینا آسان نہیں”. مقابلے مسابقت اور مارکٹنگ سے مزین جدیدیت کے اس تجربے نے قدامت پسند معاشروں کو شدت کے ساتھ اور یکدم تبدیل کیا ہے۔ پرانی دنیا مٹ گئ ہوتی ہے اور نئ دنیا اتنی اجنبی ہوتی ہے کہ لوگ وجودی بیگانگی اور بے اساسی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

جتنی شدت اور طاقت کے ساتھ مارکیٹ فورسسز ہر چیز کو relative بنا کر اثر انداز ہو رہی ہیں اتنی شدت کے ساتھ زندگی کے متبادل بیانیے کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ فطرت nature ، تقدس Sacredness ، اور ہم آہنگی harmony جو ان دیہاتی علاقوں کی روح ہوا کرتی تھی وہ نصابوں ، اور علمی و فکری بیانوں سے غائب ہو رہا ہے ۔ ایک خشک قسم کی مادی اور عقلی انتہا پسندی material dogmatism زندگی کے متبادل بیانیوں کو دقیانوسیت قرار دے کر کارنر کر رہا ہے اور نئ نسل میں یہ چیز زندگی میں معنی کے فقدان loss of meaning اور ذہنی صحت کے مسائل کے اسباب میں سے ایک سبب بنتا جا رہا ہے تو دوسری جانب پرانی نسل یا قدامت پسندوں میں فکری اور ثقافتی انتہا پسندی کو جنم دیتا نظر آرہاہے ۔ جب تبدیلی اتنی تیز ہو تو لوگ اپنی ہی دنیا میں بیگانگی اور بے اساسی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ایسے میں کچھ لوگ ماضی کی روایات اقدار اور ماضی کی دنیا کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کلی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بے بسی کا یہ احساس پھر انتہا پسند رویوں کو فروغ دیتا ہے ۔ وہ طاقت کے زور پر معاشرے کو اپنی مرضی کی دنیا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسے میں شاید ایک نئی کلچرل ڈائیلاگ کی ضرورت ہو؟ کلچر کو creative expression سے ہی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ۔ تبدیلی کو خوش آمدید کرنا چایئے لیکن کچھ اقدار جو علاقے کی پہچان رہیں ہیں ان کو ختم ہو نے سے بچایا جائے تو بہتر ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے لیے ماحول کو اور جدیدیت کی اندھی محبت میں اقدار اور روحانی شعور کو قربان نہ کیا جائے ، اور کلچرل اور responsible tourism کو فروغ دیا جائے۔ ناشپاتیاں جیسی بھی ہوں پیش کرنے کا انداز ، اور مل کے کھانے کی روایت اور کھانے کے بعد شکر کا احساس نہ بدلے تو بہتر ہے ۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email