کیا  آفت زدہ اضلاع کے لیے 2،2 کروڑ روپے کافی ہیں

چترال (زیل نمائندہ) حالیہ دنوں چترال  لوئیر اور اپر میں بارشوں کے دوران سیلابی صورت حال کے نتیجے میں متعدد علاقے متاثر ہوچکے ہیں۔مستوج یارخون سے لیکر عشریت تا اراندو تک سیلابی ریلوں اور دریاء چترال میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینات کی کٹائی اور نشیبی علاقوں کا زیر آب آنا  نصف سے زیادہ آبادی  کو آفت زدہ بنادیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات اور بلدیاتی نمائندوں کے مطابق اپر چترال میں تیس سے زائد گھرانے مکمل طور پر سیلاب برد ہوچکے ہیں جبکہ لوئیر چترال میں ان کی تعداد درجن سے بھی زیاد ہے ۔ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کی تعدا د اپر چترال میں تیس  سے زیادہ جبکہ لوئیر میں تقریباً ساٹھ کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ کھڑی فصلیں، باغات،آب پاشی اور آب نوشی کا نظام بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ رابطہ سڑکیں اور پلیں بھی دریا یا سیلاب برد ہوچکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اپر چترال میں انیس جبکہ لوئیر چترال میں انتالیس گھرانوں کو جذوی طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ متاثرہ زمینات کی اسیسمنٹ کا عمل جاری ہے۔

گزشتہ دنوں نگران صوبائی حکومت کی ہدایات پر چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کا دورہ کیا اور دونوں اضلاع کے لیے بالترتیب  دو ،دو کروڑ روپے بحالی کے کاموں کےلیے اعلان کیا۔ وقتی طور پر یہ رقم بحالی کے کاموں کے لیے کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن انفراسٹرکچر کی مکمل بحالی کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترا دف ہے۔  دریں اثناء صوبائی محکمہ ریلیف اینڈ رری ہیبیلٹشن نے سیلابی صورت حال کے پیش نظر دونوں اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر ۱۵ اگست تک ایمرجنسی نافذ کردیا ہے ۔ کیا اس ڈیکلیریشن سے بحالی اور امداد کے کام ایمرجنسی بنیادوں پر ہوں گے یا پچھلے ادوار کی طرح یہ آفت زدہ کیفیت بھی ادھوری ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر چترال کے دونوں اضلاع کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور بحالی کے کاموں کے ساتھ Assessment کے کام کی رفتار کو تیز کرے اور صاف و شفاف  Assessment کو یقینی بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرے۔ ساتھ ساتھ جن لوگوں کی زمینات دریا چترال میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے زیر آب  آگئی ہیں یا کٹائی کی وجہ سے دریا برد ہوچکی ہیں ان کی بھی شنوائی کے لیے کردار ادا کریں۔ جو لوگ مستقل طور پر آفت کی زد میں ہیں انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بھی غور کیا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email