ہنزہ کی ایک مہربان استاد کی یاد میں

جب میں چھے سال کا تھا تو قرآں پاک کی تعلیم کے لئے ہنزہ کریم آباد کے ایک نائٹ سکول میں استاد شیر اللہ بیگ کی کلاس میں مجھے داخلہ کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نانی اماں کی روح کو جنت نصیب کرے اس دن کے لیے انہوں نے خصوصی اہتمام کیا تھا۔نیت کرکے تین ہفتوں تک مسلسل دل لگا کہ پڑھائ کرتا تھا تاکہ نیک شگون کے طور پر مکھن اور روٹی جس سے بروشسکی میں "برم ہنک” کہا جاتا ہے کا اہتمام کیا جا سکے۔والدہ نے میرے لیے سفید لٹھے کی شلوار قمیص خود سیا تھا ، اور منجلی خالہ نے کشیدہ کاری کرکے قرآن کریم کے لے ایک خوبصورت غلاف تیار کیا تھا۔ نانا مرحوم تیغون شاہ ترکھان تھے انہوں نے لکڑی کا ایک "رحل "تیار کیا کہ جس پہ رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کی جا سکے۔ میں، اور میری چھوٹی بہن پرور چڑیوں کی طرح چہکتے پھدکتے ، ان انتظامات میں والدہ اور نانی اماں کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ ایک بچے کی حیثیت سے اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا لیکن اب جب ان یادوں میں کھو جاتا ہوں تو احساسِ ہوتا ہے کہ وہ سارا ماحول اللہ کے کلام کے لیے احترام اور تقدس کے جذبے سے معطر تھا۔ والد صاحب کی آواز اور تلاوت مسحور کن رہی ہے ۔ وہ جب تلاوت کرتے تھے/ہیں تو ایک عاشق اور عاجز بندے کی سوز و گداز ان کی آواز میں نمایاں ہوتی تھی/ہے۔

جمعرات کے سہ پہر جسمانی طور پر پاکیزہ ہوکے نانا ، نانی ، والدہ ، خالائیں اور کزنز کی جھرمٹ میں استاد شیر اللہ بیگ کی خدمتِ میں حاضر ہوئے ۔حسب روایت اساتذہ اور بچوں میں "برم ہنک” تقسیم کی گئی پھر استاد نے دعاء دی کہ اللہ تمہاری عقل ، دل اور روح کو قرآن کی روشنی سے بھر دے ۔ اس دن قرآں کریم میں سے انہوں نے سورہ فاتحہ کی ابتدائی تین آیات کی تلاوت سکھائی ۔ اور میرا علمی سفر شروع ہوا ۔اب اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ثقافت کی رسومات روحانی شعور، معنی کی تلاش اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ تقدس کا احساس (sense of sacred) دلانےاور کائناتی شعور cosmic consciousness کی بیداری میں مددگار ہوتیں ہیں. ویلیم ایلاڈے کا خیال ہے کہ زندگی کی میکانیت میں جب رسومات کھو جاتی ہیں تو معاشرے تقدس کا شعور کھو دیتے ہیں۔

صبح صادق کے بعد سکول جانے سے پہلے نانی کے برآمدے (بلدی) میں قرآن کریم کی تلاوت معمول تھا۔ کبھی کبھی محلے کی کوئی خاتون میری تلاوت کی تعریف کرتیں تو والدہ اور نانی کا چہرہ روشن ہو جاتا تھا۔

جب چوتھی کلاس میں داخل ہوا تو والدہ نے معنی کے ساتھ قرآں پڑھانے کے لیے استاد کی تلاش شروع کردی۔ ہمارے محلے سے کوئی دو تین کلو میٹر دور (آمین آباد) میں استاد خلیفہ مراد شاہ کے چرچے تھے۔ والدہ مجھے پیدل چل کے اس استاد کے پاس لے جاتی تھیں ۔ مراد شاہ مرحوم ایک بے لوث اور انتہائی محنتی اور قابل استاد تھے۔ ان کے دل میں درد تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے شاگرد قابل بنیں۔ جس زمانے میں معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی اس وقت وہ ایک انسائیکلوپیڈیا کی طرح معلومات رکھتے تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کے معنی، اور تفسیر پڑھانے سے پہلے تورات، زبور، انجیل اور اسلام سے پہلے کی عرب شاعری کا تعارف پڑھایا تھا۔ پھر اس کے بعد عربی گرامر ، صرف و نحو اور تجوید پڑھایا۔ پھر قرآن شریف کا اردو ترجمعہ پھر تفسیر اور آخر میں تاویل کی تین اہم کتابیں پڑھائی تھیں ۔ میٹرک تک وہ میرے مشفق و مہربان استاد رہے، جنہوں نے میری ہستی کو ایک خاص ترتیب اور معمول میں ڈھالا تھا۔ ان کی تدریس کی اہمیت کا پتہ تب چلا جب برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں علوم قرآنی کے استاد پروفیسر ہانا کاسیس سے پڑھنے کا موقع ملا۔ استاد مراد شاہ ایک میڈل پاس استاد تھے لیکن ان کا Vision کسی بھی طرح ایک علوم قرآنی کے پروفیسر سے کم نہیں تھا۔ وہ کئ معنوں میں "جدید ” اساتذہ سے بہتر تھے۔ ان کے لیے علوم قرآنی صرف ایک علمی جستجو academic activity نہیں تھا بلکہ وہ عاشق قرآن تھے۔ انکو قرآن کے معنی، قرآن کی باطن اور قرآن کے بتاے ہوئے اخلاقی اور روحانی ضابطوں کا پاس تھا۔ ان کے بعد اور اساتذہ میری زندگی میں جن سے سیکھنے کا موقع ملا اور جن کے بارے میں پھر کبھی بات ہوگی لیکن یوم اساتذہ کے موقعے پر یادوں کے قافلے میں کھوئے اپنے ان دو محسنوں کی یاد آئی تو کی پیڈ پہ انگلیاں چلنے لگیں۔ اللہ ان دونوں کی، اور میرے نانا نانی /دادا دادیی مغفرت فرمائے۔

 

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email