نگاہ مرحوم واقعی نگاہ تھے !

معروف ماہر تعلیم کھو تہذیب و ثقافت کے امین مایہ ناز محقق ،مصنف اور مترجم محترم مولا نگاہ صاحب اچانک ہمیں داغ مفارقت دے گئے اگرچہ نگاہ صاحب گزشتہ ایک سال سے جان لیوا مرض میں مبتلا تھے تاہم انہوں نے اپنے دوستوں رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کو اس موذی مرض کے بارے ہمیشہ خوش فہمی میں رکھا ۔نگاہ صاحب سے آخری ملاقات گزشتہ سال اگست میں ہوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں ہمیں ذرا برابر بھی محسوس نہیں ہوا کہ نگاہ صاحب بیمار ہیں ۔چہرے  پہ بشاشت ،تازگی ،رونق اور مسکراہٹ ہمیشہ کی طرح نمایاں۔۔ باتیں اُسی طرح  طنز و مزاح ،لطائف اور  فلسفے سے بھرپور، وہی لہجہ، وہی طرز تکلم،  یوں لگ رہا تھا جیسے نگاہ صاحب نے اس بیماری کو شکست دے دیا ہو۔ باتوں باتوں میں مولانا سعید الابرار صاحب کی زیر طبع کتاب کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے کہ میں اس بندے سے بہت متاثر ہوں۔ آج کل کے دور میں مجھے اس بندے میں بہت کچھ نظر آرہا ہے تاہم ہم ہیرے کو پہچاننے میں ہمیشہ دیر کردیتے ہیں چونکہ مولانا صاحب نے کتاب کا مسودہ نگاہ صاحب کو بھیجنے کے لیے اجازت لینے کا حکم دیا تھا میں نے موقع  غنیمت جان کر  مولانا صاحب کی اس خواہش کا بھی تذکرہ کیا تو فرمانے لگے کہ مولانا صاحب کی کتاب   کی نظر ثانی کرکے  مجھے بے حد خوشی  اور فخر ہوگی اور نگاہ صاحب کاادب کے ساتھ لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ شدید بیماری کے ایام میں بھی درجن بھر کتابیں ان کے سرہانے میں رکھی تھیں اور نظر ثانی کے لیے بھیجی گئی کتاب کو بھی بخوشی قبول کرنے کو تیار تھے۔ حالانکہ ایسی کتابوں کو سرسری طور پر پڑھا نہیں جاتا بلکہ مکمل غرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کرنا ہوتا ہے اور پھر کتاب پر تبصرہ بھی کرنا ہوتا ہے اس کے باوجود نگاہ صاحب نے نہ صرف ہاں کر دیا بلکہ تاکید کی یہ کتاب ضرور مجھے بھیجوا دینا ۔لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا کہوار ادب اردو فارسی ادب کے لیے بے مثل  خدمات سر انجام دینے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ نگاہ صاحب کو ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا ۔ابھی نگاہ کے کام پورے نہیں ہوئے تھے بلکہ ہماری بدقسمتی ہے ہم نگاہ صاحب سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے جو اٹھانا چاہئیے تھا ۔

ہم سب پر امید تھے کہ نگاہ صاحب پھر سے رونق محفل ہوں گے اور بہت کچھ ادب کے حوالے سے مزید کر گزریں گے ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے اور نگاہ صاحب چپکے سے روانہ ہوگئے۔ آج نگاہ صاحب کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے  دل کی دھڑکنیں رکنے لگتی ہیں ۔مولا نگاہ نگاہ صاحب کھو ثقافت کو اپنی اصلی حالت میں دیکھنے اور زندہ رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے کھوار کے متروکہ الفاظ اور رسم و رواج پر وہ بولنے لگتے تو سننے والا خود کو اٹھارویں صدی میں پاتا ۔لفظ نگاہ صرف مولا نگاہ صاحب کا تخلص نہیں تھا بلکہ وہ حقیقی معنوں میں کھوار زبان اور کہو ثقافت کے لیے نگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہر ہر لفظ پر ان  کی نظر تھی۔ ہر ہر رسم کو وہ ٹوٹتا ہوا دیکھتا اور محسوس کرتا تھا کہ یہ رسم ختم ہونے والا ہے اور غیروں کے رسوم  رواج پا رہے ہیں ۔نگاہ صاحب ہمیشہ کھوار زبان اور کھو ثقافت کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ یہاں تک نگاہ صاحب نے مر کر بھی کھوار زبان اور کھو ثقافت کے دشمنوں کو بے نقاب کر دیا کہ یہ دیکھو میری زندگی میں تم لوگوں نے تہذیب و ثقافت کے اس دشمنوں کو نہیں پہچانا اب میں مر کر ان کو بے نقاب کر رہا ہوں تاکہ تم ان کو پہچان سکو ۔

آج میں اس مضمون کے ذریعے ان لوگوں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جہنوں نے ہمارے نگاہ کی فوتگی پر رقص کیا اور اس بہودہ حرکت کو چترالی کلچر یا ثقافت کا نام دیا

نگاہ صاحب آپ تو چلے گئے لیکن جاتے جاتے ان آستین کے سانپوں کے چہروں سے ثقافت کا پردہ ہٹا دیا اور آپ نے ہمیں بتا دیا کہ ان مفاد پرستوں کا تمہاری ثقافت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ دو پیسوں کے لیےثقافت کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے کھوار ادب و ثقافت کے امین کی رحلت اتنا بڑا حادثہ تھا کہ پورا چترال سوگ منا رہا تھا اور چند  ڈگری یافتہ اور ثقافت کے نام نہاد ٹھیکیدار رقص کر رہے تھے ۔ان باشعوروں کی اس قبیح حرکت نے نگاہ صاحب کی جدائی کے صدمے کو دس گنا بڑھا دیا ۔

اللہ تعالیٰ نگاہ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں اور ہمیں اپنے محسنوں کو پہچاننے اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email