لوگ کیا کہیں گے ؟

اس تحریر کا عنوان وہ فقرہ ہے جو معاشرتی، ثقافتی، مذہبی، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے ہماری سوچ اور ہمارے روزمرہ کی زندگی میں سرایت کر گئی ہے جو کئی مرتبہ ہمیں صحیح کام سے روکنے اور کئی مرتبہ غلط چیز کروانے کا مؤجب بنتی ہے۔ چنانچہ یہ ہمارے عام مشاہدات اور تجربات سے واضح ہے کہ زندگی کے کئی سارے پہلو ایسے ہیں کہ جن میں ہم اختراع کے آخری حدود اور آخری دہانے پر ہیں۔ خواہ وہ معاشرتی، تقافتی، روایتی یا مذہبی کسی بھی اعتبار سے ہوں۔

اس عنوان پر مزید غور و خوض سے ایک اور نکتہ واضح طور پر سامنے آتا ہے اور وہ ہے اکثریت کی پیروکاری۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو چیز ہم کر رہے ہیں یا جس چیز سے ہم اجتناب کر رہے ہیں اس میں ہماری اپنی مرضی کی مداخلت کتنی ہے اور کتنے فیصد ہم دوسرے عوامل کی وجہ سے ایسا کر نے پر مجبور ہیں۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو اس کا خلاصہ ہو جاتا ہے کہ کئی ایسے معاملات ہیں جن میں کئی سارے دینی معاملات کو روایات اور ثقافت نے کچل دیا ہے اور کئی سارے ثقافتی معاملات کو رائے عامہ نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارا رخ اس طرف ہوجاتا ہے جس طرف ہوا کا رخ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی پہچان کی کشمکش میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم ہر کسی کو پسند نہیں آسکتے اور چاہے ہم کچھ بھی کر لیں، ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی مطمئن۔ یہ ادراک ہونا بھی ضروری ہے کہ اکثریت حق پر ہونے کی دلیل ہر گز نہیں۔

معیارِ حق شناسی کثرت نہیں اگرچہ
پھر سوچتا ہوں اکثر کہ لوگ کیا کہیں گے

ہماری خودی اور ہمارا شعور اکثریتی رائے اور سوچ کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ ہمارا زندگی گزارنے کا شعار "لوگ کیا کہیں گے” سے شروع اور "لوگ کیا کہیں گے” پر ختم ہوتا ہے جو ہماری حقیقی پہچان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنی شناخت برقرار کیسے رکھیں؟ صحیح کو صحیح سمجھیں یا اکثریت کو صحیح سمجھ کر اپنے آپ کو حالات کے حوالے کردیں؟ توازن قائم کریں تو کیسے کریں ؟ یا یہ مان کر چلتے رہیں کہ جو ہے وہ ہے اور یہی سچ ہے! اور یہ کہ سچ ہی صحیح ہے۔

میں سوچتا ہوں اکثر کروں گا جو صحیح ہے
اور سوچتا ہوں پھر سے کہ لوگ کیا کہیں گے

Print Friendly, PDF & Email