آزادی کا وہم

آزادی کے چھہتر سال بعد بھی یہ اضطراب کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں ؟ یقیناً ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں بارہا ابوالکلام آزاد کی کہی ہوئی بات کہ "اس آزاد ریاست میں مایوسی پھیلے گی "، انفرادی و اجتماعی طور سطح پر مختلف پلیٹ فارمز کے زریعے مایوسی پھیلایا جارہی ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بہت سارے افراد اس بات سے متفق بھی نظر آرہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ریاست آزاد ہے مگر عوام ابھی بھی غلامی ذہنیت کا شکار ہیں۔ یقیناً یہ اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو ایک مخصوص گروہ کی کاوشوں سے پنپ رہی ہے۔

المیہ اس ذہنیت کا پروان چڑھنا نہیں ہے بلکہ اس کے سد باب کی کوششوں کی اس کو مزید تقویت دینا ہے۔ اس ذہنیت کے مخالف گروہوں کی پے در پے ناکامی نے بہت سارے ایسے سوالات جنم دیے ہیں جن کے جوابات ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے مترادف ہو کر رہ گئے ہیں۔

آزادی کا دن ہمیں اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کی یاد دہانی کرواتا ہے اور ایک آزاد مملکت میں سانس لینے پر ان کے مشکور ہونے کا دن سمجھا جاتا ہے مگر حالاتِ حاضرہ میں یہ احساس ماند پڑتا جا رہا ہے۔ کئی سارے افراد اور گروہوں کا آزادی منانے کا بائیکاٹ اسی ماند پڑتے احساس کی عکاسی ہے۔ قنوطیت پسندی کی انتہا ہے کہ عدلیہ، افواج، مقننہ، سیاست، نظام غرض یہ کہ ہر ادارے پر تنقید عروج پر پہنچ چکی ہے اور دلاسے کے لئے بس یہی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے اس ملک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ان مقاصد کا حصول آخر کار ممکن کیوں نہیں ہو پارہا؟ کیا ہم اتحاد ، ایمان اور نظم و ضبط کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں؟ کیا واقعی عدل و انصاف، مساوات، دیانت داری اور اخوت کا فقدان ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے؟ قائد اعظم کے بقول کیا ہم واقعی اپنے کلیساؤں، مسجدوں اور مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں؟ کیا آزادیِ اظہار رائے پر قدغن ہماری ملی نشوونما کو متاثر کر رہی ہے؟ کیا ‘بول کہ لب آزاد ہیں تیرے’ ہم پر لاگو نہیں ہے؟ کیا واقعی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور چار دیواری کے تقدس پامال ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری سویلین بالادستی کو خطرہ لاحق ہے اور کیا حکومتیں واقعی میں ہم منتخب کرتے ہیں؟

اگر ان سوالوں کا جواب ‘ہاں’ ہے تو بلاشبہ ہم معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور اگر ‘نہیں’ ہے تو یہ سارا شور و غوغا محض وقتی تماشا ہے۔

اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ آزادی آپنے آپ میں ایک وہم ہے اور اپنی بہترین حالت میں بھی یہ صرف اور صرف پابندیوں کا نام ہے جیسا کہ قائدِ ملت نے کہا تھا کہ آزادی کا مطلب لائسنس نہیں کہ ہم جو جی میں آئے کرتے پھریں بلکہ اس کا مطلب مزید ذمہ داریاں ہے۔

اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کے تشکر کے علاوہ ہمیں آزادی کے دن ان لوگوں کی جدو جہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ جو ہمارے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور ہماری (رہی سہی) آزادی کے لئے مسلسل اپنی جان، مال اور وقت مختص کرتے آرہے ہیں اور کرتے جارہے ہیں۔

خدا ارضِ پاک کے پرچم کو ہمیشہ ہمارے لئے امید کی علامت رکھے اور ہمیشہ اس کو لہراتا رکھے۔

پاکستان پائندہ باد

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email