معلومات کی یلغاریں

انسانی فطرت کا خاصہ شکم سیری سے بہتر جانچا جاسکتا ہے۔ مزید گنجائش رکھنے سے طبیعت کے لیے مسائل پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ فوائد سے زیادہ نقصانات کا باعث بن سکتاہے۔ مطلب توانائی حاصل کرنا ہو تو اس کا ایک پیمانہ ضرور ہونا چاہئے۔ معلومات کی یلغاریں برابر بلاروک ٹوک مسلسل وارد ہو رہی ہیں۔ معلومات دھاوا ڈھالتے ہیں اور حملہ اور ہوتے ہیں۔ ان کا نزول اتنی سرعت اور تسلسل سے ہورہی ہے کہ چھان بین کے بغیر صارفین ان کے شکار ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ صارف کو انتخاب کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور وہ اس سمندر بے کراں کے موجوں کا نذر ہوجاتاہے۔ صارف کے لیے ٹائم ڈائلیشن کی تیوری عام فہم کردیا جاتا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے معلومات سے پرے ہٹنا اس کے لیے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ شاید معلومات کی یلغاروں سے فیض یاب ہونا صارف واسطے ایڈکشن کی شکل اختیار کرگئی ہے۔

دنیا پر ایسے عہدیں بھی ہو گزرے ہیں کہ لوگوں کے کان معلومات کے لیے ترستے تھے۔ دنیا کی زبانیں، ان کے لہجے، ثقافتیں اور مذاہب انہی عہدوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ان ادوار میں اساتذہ اور ایلچی معلومات کے ذرائع ہوا کرتے تھے۔ ایک ناتواں ملک کا نحیف بادشاہ اپنے طاقتور دشمن ملک کے سر مست حکمران کے ممکنہ حملے سے متعلق معلومات حاصل کرنے واسطے بی خوابی میں آشفتہ سری سے بھاگ دوڑ لگاتا۔ ایک عاشق معشوق کی  دیدارکے واسطے کوچہ یار میں سرپھرا خوار ہوتا مگر اضطراب کے ساتھ متجسس رہتا۔ دور رہنے والے رشته داروں کی خبر لینے کے لیے لوگ توہمات سے تشفی حاصل کرتے تھے۔ باوجود آنکہ وہ معلومات سیاہ اور سفید میں یکتا تھے۔ ان معلومات میں بھورے پن کی رنگت کم ہی ہوتی بشرطیکہ وہ مخمصانہ نہ ہوتے۔

مثال کے طور پر خبر آئی کہ برمودا تکون نے ایک بحری کشتی کو نگل لیا۔ اگر واقعی برمودا تکون کشتی کو نگل لیتا ہے تو شیطان کو کیوں نہیں نگل لیتا ہے یا شیطان کا وہاں سے گزر نہیں ہوتا۔بھارت کی اکیس سالہ ہر ناز کور سندو نے مس یونیورس کے ٹائٹل کی پٹی زیب تن کر کے ڈیڑھ لاکھ ڈالر انعام کا حقدار ٹھہری اور چترال کی ایک بیس سالہ لڑکی گلفام بی بی چترال کے بلند و بالا پہاڑوں کی صاف آب و ہوا میں سانس میں گھٹن محسوس کرکے دریائے چترال میں چلانگ ماری اور اپنی سانس کو پانی کے چند بلبلوں میں تبدیل کرکے پانی نے اس کی زندگی سے بیزاری پر پردہ پوشی کی چادر چڑھائی۔ مس یونیورس کی خبر کی دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر چترال کی خبر کو الٹریٹی یا غیر کا درجہ دے کر محدود کردی گئی۔ کیا ان کی تخلیق میں فطری کج روی تھی یا کچھ طاقتیں بر سر پیکار ہیں جو فطری مخلوق کی مختلف شناختوں کی بنیاد پر درجہ بندیاں کرتی رہی ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گلوبل ویلج صارفین کی حد تک تو ایک ہے مگر جاپان کے باشندے کا سوڈان کے باشندے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر معلومات کے حدود و قیود نہیں ہیں اور ہم پر یہ آشکارا نہیں ہوتا کہ دنیا کی طاقتور ترین ممالک تیسری دنیا کے ممالک کو پس ماندہ رکھنے کے لیے کیا تمہید باندھ رہے ہیں تو ہمارے لئے سرکاری آٹا ٹرک کے پیچھے بھاگتا ہوا شخص خبر کی سرخی ہے۔

معلومات کی یلغاروں کے اہداف صارفین ہوتےہیں مگر بہت کم صارفین انتخاب کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غیر ضروری معلومات سے ان کے اندر بے چینی بڑھتی جاتی ہے اور اس اضطراری کیفیت سے نکلنے کے لئے مزید معلومات حاصل کرنے کے درپے ہوکر ذہنی کوفت میں اضافہ ہوتاہے مگر ایڈکشن برقرار رہتا ہے۔ اصل میں شکم سیری بہت زیادہ گنجائش رکھنے پر انٹی پیراسٹلسز کا حق محفوظ رکھتا ہے مگر دماغ ایک بہت ہی بڑی گیگا بائٹس ہارڈ ڈسک کی مثال رکھتی ہے جس میں لامحدود ڈیٹا سمایا جاتاہے مگر معلومات کی یلغاروں کو ترتیب دینے میں مشکل سے دوچار ہوتاہے جس سے سکون غارت ہوجاتاہے۔ اشرافیہ کی محفل عیش و نشاط صارف کے لیے ملکی صورتحال پر گفتگو کی خبر بن جاتی ہے جس کا صارف مفت میں شکار بن جاتا ہے۔
ایک عام صارف کے لیے ایمازون کی جنگل میں وحشی ننگی دھڑنگی عورت کے نانچنے اور سہارا صحرا میں ایک سانپ نظر آنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اس سے معلومات کی یلغاروں میں انتخاب کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے بشرطیکہ صارف خود شکار بننا نہ چاہے وگرنہ معلوماتی یلغاروں کی واردگی تو ہوتی رہے گی۔

Print Friendly, PDF & Email