جشن ِ آزادی اور اردو ادب

یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تصویر کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں، ایک روشن اور چمک دار کہ  جس کو سب آئیڈلائز کرتے ہیں اور اسے ہر کسی کو دکھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جب کہ اس کے مقابلے میں اگر دوسری جانب کا جائزہ لیا جائے تو وہ پہلے کے مقابلے میں اتنا ہی تاریک اور سیاہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کو دکھانے کی بات تو بہت دور کی ہے اس کا ذکر تک نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ یہی صورت حال آزادی پاکستان کے متعلق ہے۔ 14 اگست 1947ءکو ہمارے بزرگوں نے بہت محنت اور جدوجہد کے بعد مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ملک حاصل کیا کہ جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھی گئی۔ ہر سال آزادی کا یہ دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ مگر میرے خیال سے آج تک کسی شخص نے اس بات کے بارے میں نہیں سوچا کہ 14 اگست 1947ء کو جب ہم نے یہ آزاد ملک حاصل کیا تھا تو ہمیں خوشی تو حاصل ہو گئی تھی اور ہم ہر سال  اس خوشی کے دن کو مناتے بھی ہیں مگر کیا یہ دن سب کے لیے خوشی کا دن ہو سکتا ہے؟ جہاں تک میرا خیال ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے کیوں وہ ماں کہ جس کی بیٹی کی عزت لوٹی گئی ہو، وہ بھائی کہ جس کی بہن کے سر سے چادر چھن گئی ہو، وہ باپ کہ جس کے گھر کی عزت عصمت دری  کا نشانہ بن کے  اس کی لاش کھیتوں اور گندے نالوں میں ڈال دی گئی ہوں وہ بھلا یومِ آزادی کے اس دن کو دوسرے لوگوں کی طرح کیسے خوشی کا دن قرار دے سکتا ہے۔بالکل ، یہ تمام تر واقعات رونما ہوئے تھے اسی دن جب آزادی کے بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔  لوگ اپنی جوان بیٹیوں کو ساتھ لے کر نئے ملک میں نہیں آسکتے تھے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ کہیں راستے میں ان کی عزت نہ لوٹ لی جائے اس لیے وہ اس  حد تک مجبور ہو گئے تھے اور اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے ان کو مار  ڈالے کہ اس بہانے ان کی عزت و ناموس پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا۔

اگر اردو  اد ب کا مطالعہ کیا جائے  تو ہمیں کئی ایسے مصنفین نظر آتے ہیں کہ جنھوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو قارئیں کے سامنے لانے کی پوری کوشش کی۔ ان میں سب سے بڑا نام سعادت حسن منٹو ہے۔  منٹو نے ہر ایک موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔اور آزادی کے حوالے سے ان کا سب سے نمایاں افسانہ ” کھول دو” ہے۔ اس افسانے کو پڑھنے کے بعد جیسے کلیجہ منہ کو آجاتا ہےاور ان رضا کار وں پر افسوس ہوتا ہے کہ جو اپنا مقصد اس وقت کے ہجرت کر کے نو واردوں کی مدد کا کہہ رہے تھے۔ نہ جانے اس افسانے کے مرکزی کردار ” سکینہ” کی طرح کتنے سکینوں کو ان رضا کاروں نے ماں باپ سے ملانے کا لالچ دے کے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہو گا۔منٹو کو اپنی بے باکی کی وجہ سے کئی مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ کہا جاتا ہے کہ جب منٹو نے اپنا یہ افسانہ حلقہ اربابِ ذوق میں پڑھ کے سنایا تو اس حلقے کے ارکان نے کہا کہ افسانہ تو اچھا ہے اگر اس میں مسلماں رضا کاروں کا ذکر نہیں ہوتا تو۔

یہ ہے انسان کی بے حسی کہ معاشرے میں آئے دن ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے منٹو  خود کہتے ہیں:

” اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ نا قابلِ برداشت ہے۔ ۔۔۔ میں تہذیب و تمدن  کی اور سوسائٹی کی چولی   کیا اتاروں گا  جو ہے ہی ننگی۔۔۔۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا ، اس لیے کہ یہ میراکام نہیں ، درزیوں کا ہے۔۔۔۔”

کھبی کھبار میں سوچتی ہوں کہ حلقے والوں نے تو منٹو کو مسلماں رضا کار کے الفاظ استعمال کرنے پر اعتراض کیا تھا اگر قدرت اللہ شہاب اس حلقے کے رکن ہوتے تو پتہ نہیں ان کے افسانہ” یا خدا”  پر وہ کیا کہتے۔ اردو ادب میں عام طور پر قدرت اللہ کی پہچان ان کی آپ بیتی” شہاب نامہ” کی وجہ سے ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ انھوں نے افسانے کی صنف میں بھی طبع آمائی کی اور اس صنف میں بھی ان کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ قدرت اللہ شہاب کے افسانہ کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ واقعی ان تمام تر   حالات سے گزر کر ” دلشاد” نے دل سے ” یا خدا” پکارا ہوگا۔ نہ صرف دلشاد بل کہ ہر قاری نے یہی کہا ہو گا۔ پاکستان جب آزاد ہو گیا تومسلمانوں نے سوچا کہ اب ہم  اپنے ملک میں آزادی کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور وہاں پر ہماری عزتیں بھی محفوظ ہوں گی۔مگر اس نئے ملک میں آنے کے بعد  بھی جب دیکھا گیا کہ ہندوستان میں امریک سنگھ نے عصمت دری کی اور اپنے وطن میں سیٹھ مصطفی خان، سیٹھ علی  اور نجانے کتنے اور اپنوں نے  گہرے زخم دیے تو آزادی ان کے لیے کوئی معنی نہ رکھا۔۔ قدرت اللہ شہاب نے بھی اسی کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے کہ دلشاد ہندوستان میں امریک سنگھ کے ظلم کا نشانہ بن کے آزادی کے بعد خوشی خوشی اپنے ملک آجاتی ہے مگر یہاں بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے بس فرق صرف اتنا رہ گیا کہ نام بدل گئے۔  غیروں اور اپنوں کی اس زیادتی کے بعد دلشاد کے  اوپربے حسی طاری ہو جاتی ہے اور اس کی روح ہی مر جاتی ہے۔اردو ادب کی مشہور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کہتی ہیں:

"یا خدا صرف دلشاد کی ٹریجڈی نہ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں عورتوں کی ٹریجڈی بن گئی۔”

منٹو اور قدرت اللہ شہاب کے علاوہ کئی مصنفین  اور ایسے ہیں کہ جنھوں نے تصویر کے اس رخ کو اپنا موضوع بنایا۔ ان میں اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، ہاجرہ مسسرور، خدیجہ مستور وغیرہ شامل ہیں۔

تصویر کے اس  رخ کو جاننے اور دیکھنے کے بعد ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے  کہ آزادی کے اس دن خوشیاں تو اپنی جگہ مگر ہمیں ان لوگوں کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی ضرورت ہے کہ جنھوں نے اپنی عزت، گھر اور تمام چیزیں لٹا دیں۔ اگر ہم شروع دن سے تصویر کے اس دوسرے رخ پر غور کر کے کوئی اقدام اٹھاتے تو آج کسی سیٹھ مصطفی یا  سیٹھ علی کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ ہمارے گھر کی بیٹیوں کو بد نامی کا باعث بناتے جو کہ آج تک بد قسمتی سے جاری ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email