” آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں”

گذشتہ دنوں ساہیوال میں ہونے والے واقعے نے سوچوں کے محور کو ایسے دلدل میں دکھیلا کہ اس میں دھنستا چلا گیا کہ آخر ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہوتے کیوں ہیں؟آپ ذرا ماضی میں  کا جائزہ لیں ۔ آپ کو شازیب پیرزادہ، نقیب اللہ محسود، زینب، اور جانے کتنے ان گنت واقعات ہیں جو اس معاشرے میں رونما ہوتے ہیں نظر آئیں گے۔ مجال ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں ندامت محسوس ہوتی ہو،  عدلیہ یا حکمرانوں کی غیرت  ذرا سی  بھی جاگی  ہو شاید ہمارا ضمیر مردہ ہو چکا ہے ہم اخلاقی طور پر اتنے زوال کا شکار ہو چکے ہیں کہ سوچنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ حضرت علیؓ   کا قول ہے کہ "کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں”

اس ملک میں، اس معاشرے میں ہر قدم پر ظلم ونا انصافی کا راج ہے طاقتور کے سامنے تمام قوانین نیچ اور بے بس جبکہ کمزور کا کوئی پرسانِ حال اور ولی وارث نہیں۔

جس معاشرے میں انصاف کا فقدان ہو جہان انصاف کیلیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں  حق پر ہوتے ہوئے بھی دستبردار ہونا پڑے، ایسے معاشرے مٹ جایا کرتے ہیں۔ ویرانی اور سیاہ بختی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اسی المیے کا شکار ہے جہاں کہنے کو بڑی بڑی عدالتیں لگتی ہیں مگر انصاف ندارد ۔

کسی بھی جمہوری ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ جو اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے عوامی فلاح کیلئے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے، بجائے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کے یہ ایک دوسرے کے امور میں ٹانگ اڑانے کو اپنا شیوہ بنائے رکھتے ہیں۔

جس معاشرے میں قاضی القُضأ اپنے امور نمٹانے اور عوام کو سستا انصاف مہیّا کرنے کی بجائے ہسپتالوں،  تعلیمی اداروں، شاہراہوں کے دوروں اور ڈیموں کے چندے کو اور عوامی حلقوں میں پذیرائی کی خاطر میڈیا کے سامنے رہنے کو انصاف کی فراہمی پر ترجیح دے تو اس معاشرے میں مایوسی،  ناانصافی، حق تلفی اور ساہیوال جیسے واقعوں کا راج ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ پھر کسی کو کسی بھی نوعیّت کا انتہائی قدم اٹھانے پر کسی قاضی کی تعزیر کا ڈر نہیں ہوتا اور یوں معاشرے بے لگام ہوتے ہیں اور عوام کو انصاف کیلئے در بدر ہونا پڑتا ہے اور معمولی نوعیّت کے مقدمے بھی حل کروانے میں سالوں نہیں نسلوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو اس معاشرے کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ اس کی تازہ مثال آپ کے گوش گزار کرتا ہوں کہ چند دن قبل ایک ذاتی نوعیت کے معمولی کیس کے سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ جانے کا اتفاق ہوا جو کہ زندگی کا پہلا منفرد تجربہ تھا اس سے قبل کورٹ کچہری سے واسطہ نہیں پڑا تھا یہ کیس متعدد بار فیصلہ شدہ اور اسی کورٹ سے ڈگری شدہ تھا ،کیس دائر کرتے وقت precedent کے طور پر فیصلہ شدہ کیسوں  کی ججمنٹ بھی ہمراہ منسلک کیے گئے تھے کیس دائر کئے تقریباًسوا سال ہونے کو آگیا ہے  مگر نتیجہ وہی ،تاریخ پہ تاریخ،  تاریخ پہ تاریخ، جب ایک ہی محکمہ کے ایک ہی طرز کے متعدد بار فیصلہ شدہ کیسسز کا یہ حال ہے تو دیوانی اور املاکی نوعیت کے نئے  کیسسز کا کیا ہوگا۔ مگر اس سے ایک راز منکشف ضرور ہوا اور جاننے کا موقع ملا کہ وکلاء اور سیاستدانوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے یہ لوگ بھلے کسی پارٹی کی نمائندگی کریں یا وکیل کسی فریق کا ہو، اندر سے یہ سب ملے ہوتے ہیں ان کے مفادات یکساں ہوتے  ہیں ۔ اس مشاہدے سے اندازہ ہوا کہ عدلیہ سمیت عدالتی نظام سے وابستہ ہر شخص ناصرف انصا ف کا قاتل  اور اس کے راستے کا پتھر ہے بلکہ معاشرے کے اصل بگاڑ کا باعث بھی یہی لوگ ہیں، انہی کی وجہ سے معاشرے میں انصاف کا فقدان، لوگوں میں احساس محرومی اور انتقامی رویئے جنم لیتے ہیں

ملکِ خداداد میں ایسے کتنے ہی کیسسز ہیں جو عرصہ دراز دے زیرسماعت ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اسی ناانصافی کی مرہونِ منت معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور لوگوں میں بغاوت اور من مانیت جیسے منفی رویے جنم لیتے ہیں۔ اگر عدالتیں انصاف کی فراہمی کو احسن اور سزا وجزا کے معیار کو اپنا شُعار بنائیں تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل خودبخود حل ھوجا ئینگے  مشہور مقولہ ھے کہ

( Justice delayed is justice denied)

انصاف میں تاخیر انصاف کی تردید ہے۔ کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں امن و سلامتی کا دارومدار انصاف کی بلا تعطل فراہمی پر ہوتا ہے اور عدل وانصاف کسی بھی مہذب معاشرے کا حُسن اور اساس ہے۔

ہم کو شاہوں کی             عدالت سے توقع تو نہیں

آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email