وقت کا تقاضا اور سنت رسول

 

جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے تب سے افراد، گھرانے، قبیلے، بستیاں اور ممالک بھی پورے آب و تاب کے ساتھ کائنات کی زینت بنتے آئے ہیں. ملک، ملک نہیں کہلاتا جب تک کہ وہاں افراد، گھرانے، قبیلے اور بستیاں آباد نہ ہوں. یہی سبب ہے کہ ہر فرد کسی نہ کسی گھرانے، قبیلے، بستی اور ملک سے تعلق رکھتا ہے، اور ہر ملک ایسے کئی بستیوں، قبیلوں، گھرانوں اور افراد کی جاۓ پناہ ہے.

کوئی ملک خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سربراہ کے بغیر نہیں چل سکتا. ملک تو ملک ہے ایک گھرانہ بھی سربراہ کے بغیر نہیں چل سکتا. کئی ممالک ایسے ہیں جہاں شاہی نظام حکومت قائم ہے اور کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے. لیکن یہ بات تو اٹل ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں دنیاوی امور کی انجام دہی کے لیے سربراہ ضرور موجود ہے. سربراہ کے بغیر نہ صرف ممالک بلکہ بستیاں، قبیلے اور گھرانے بھی تباہ ہو تے ہیں. دنیاوی حکومت کے سربراہان یا تو خود بدل جاتے ہیں یا عوام انہیں بدل دیتے ہیں. یہ ایک دنیاوی قانون ہے. دنیاوی قانون کے ساتھ ساتھ دینی قانون بھی ہے جو دنیاوی قانون سے کہیں زیادہ شفاف، اصولی اور سخت ہے. گویا گھرانوں، قبیلوں، بستیوں اور ممالک کی بہبود اور ترقی کا دارومدار ان کے سربراہوں پر ہے. اور دوسری طرف گھرانوں، قبیلوں، بستیوں اور ممالک میں جتنے افراد بستے ہیں کسی نہ کسی عقیدے اور نظریے سے تعلق رکھتے ہیں. عقائد اور نظریات سرحدوں سے بالاتر ہو تے ہیں. اسی وجہ سے تمام دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں،جو کسی نہ کسی سربراہ کے اشاروں پر اچھلتے ہیں. یعنی ہر گروہ کسی نہ کسی سربراہ کے زیر نگرانی اپنے عقائد و نظریات کو پروان چڑھا رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے. اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو وہ اپنے عقائد و نظریات سے خوش اور مطمئن ہیں. جیسا کہ سورۃ روم آیت نمبر 32 میں ارشاد ہے.
کل حزب بما لدیھم فرحون.
"ہر گروہ اس چیز سے خوش ہے جو اس کے پاس ہے.”

رسول اکرم صلعم جب مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں بہت سے قبائل اور بہت سے عقائد کے حامل لوگ موجود تھے. وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے،اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے. لیکن پیغمبر آخر زمان نے ان سب کو مذہبی آزادی دی، اور یہ تعلیم دیا کہ ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہیں، ایک دوسرے کی عقائد کا احترام کریں. آپ نے ان کے درمیان مواخات قائم کیا اور میثاق مدینہ کے نام سے ایک آئین تیار کی، جس پر تمام گروہوں نے اتفاق رائے ظاہر کیا. اس طرح مدینے کی اسلامی ریاست ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا. لیکن یہ الگ بات ہے کہ بعد میں غیر مسلم اور مشرکین رسول اکرم صلعم اور مسلمانوں کے اچھے کردار اور اچھے اعمال کو دیکھ کر متاثر ہوئے اور دین اسلام میں داخل ہوئے. زبردستی یا ڈرا دھمکا کر کسی کو مسلمان نہیں کیا گیا بلکہ صلہ رحمی اور رواداری سے متاثر ہو کر وہ خود راہ حق کی طرف رجوع کرنے لگے.

یہ ہمارے آخری رسول صلعم کی سنت ہے. اگر ہم اس کے امتی ہیں تو اس کی سنت پر عمل پیرا ہونا فرض عین ہے. اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم مواخات مدینہ اور میثاق مدینہ سے سبق حاصل کریں اور دوسرے اقوام کو متاثر کریں. ورنہ جو طیور ہم مسلمانوں نے اختیار کیا ہے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے!!

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email