تلخ و شیریں

 

نیا زمانہ ہے اور نئے لوگ ہیں، نئے لوگوں کے نئے انداز ہیں. جو اخلاقی ضوابط تھے وہ پامال ہو رہے ہیں نتیجہ بھی سامنے ہے، کیسے اعمال ہو رہے ہیں. چھوٹے بڑے میں تمیز نہیں رہا، جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتا ہے جو من میں آتا ہے کر ڈالتا ہے، نہ آگے کی خبر ہے اور نہ پیچھے کا ڈر، ایک دیوانگی ہے کہ عقل انسانی کو حیرانگی ہے.، ایک دوسرے کی باتوں کا احترام کہاں، ہر کوئی اپنے ہی بات کو حرف آخر مانتا ہے، انسانیت کیا تقاضا کرتا ہے کسی کو بھی احساس نہیں، احساس دلاؤ گے تو پلٹ کر بتائے گا کہ جو میرا ہے وہ تیرے پاس نہیں، ایک اضطراب اور تیزی کا عالم ہے. یہی تیزی اب ہر چیز پر مقدم ہے. بتانا، چاہوں بھی تو کس کو بتاؤ گے، چھپا نا چاہوبھی توکیسے چھپاؤ گے؟ سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، اور انسان سر عام اپنا قدرکھو رہا ہے. اوپر والا دیکھ رہا ہے. اس کے باوجودبھی نظام چل رہا ہے. یہ نظام کب تک چلے گااور نفرت وغرور کی آگ میں انسان کب تک جلے گا؟ ایک معین مدت ہے، بعد اس مدت کے بہت شدت ہے، کسی نے کچھ سوچا بھی ہے اور اپنے آپ سے کچھ پوچھا بھی ہے؟

کیا یہی زندگی ہے؟ کیا یہی طریق بندگی ہے؟ زندگی ایک خواہش ہے، زندگی میں آزمائش ہے، زندگی نمود و نمائش ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی میں موت و پیدائش ہے. دنیا اضداد کا مجموعہ اور زندگی اضداد سے کھیلنے کا ایک مشغلہ ہے. یہ ایک سلسلہ ہے، یہ اوپرتک پہنچنے کاایک وسیلہ ہے. جاننے والے سب انجان ہیں، اور جو نہیں جانتے وہ حیران ہیں. حافظہ سب رکھتے ہیں، مگر کام نہیں لیتے، اور جو کام نہیں لیتے. وہ کوئی دام بھی نہیں لیتے. بچپن، جوانی اور بڑھاپا مراحل حیات ہیں، ان مراحل سے گزرتے ہوئے فرائض نبھانا مقصد حیات ہے. اور جو اپنا مقصد حیات جانتا ہے، وہ عین انسان کی ذات ہے.عمر بھی بڑھے گی اور حالات بھی بدلیں گے پر کوئی کیوں نہیں سوچتا کہ وہ کس کی آغوش میں پھلا پھولا تھااور کس کا ہاتھ پکڑ کر اچھلا کھودا تھا؟ اس کو احساس تک نہیں کہ جن کے سہارے وہ جینا سیکھا تھا ایک دن ان کی عمر کو وہ بھی پہنچے گا. اس دن یہ ان کا محتاج تھا، اور وہ اس کے محسن تھے. اور اب وہ اس کے محتاج ہیں، اور یہ ان کے محسن. جن کے اوپر پرورش کا بوجھ تھا، خوشی سے اٹھایا، اس سےکسی کو بھی انکار نہیں. لیکن جس کی دیکھ بھال کی گئی، اسے اس بات کا اقرار نہیں. جیسے وہ خود پھلے پھولے ہوں اور خود اچھلے کھودے ہوں. وہ یہ بھی نہیں سوچتےکہ جن کو چھوڑ کر وہ جن کا خیال کر رہے ہیں کل انہوں نے بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا، جس طرح آج وہ کر رہا ہےتو کیا ہوگا؟ ضرور اس کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک کیا جائے گا. جو بو وگے وہی کاٹو گے ایسے ہی نہیں کہتے.

بہرحال یہ سب ایسی باتیں ہیں، جو کسی من کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے سکھ دیتے ہیں، اور کسی من پر بوجھ بنتے ہوئےاسے دکھ دیتے ہیں، سوچنے کا مقام ہے، یہ سلسلہ جاری رہا، تو آخر کیا انجام ہے؟ ماضی کےمقابلے میں ہر دور جدید ہے، اور مستقبل کے مقابلے میں ہر دور کا قدیم ہے. جو گزر چکا ہے تمہارے سامنے ہےاور جو آنے والا ہے تم اس کے سامنے ہو، اس لئے گزرنے والوں سے عبرت لے لو، اور آنے والوں کے لیے مثال بنو. لگتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں نفسانفسی اور بے راہروی کا دور دورہ ہوگا، اور انسانی رشتے بالکل بے قیمت ہو کر رہ جائیں گے، دور قریب ہوں گے، اور قریب دور ہوں گے. کیونکہ جو نمونہ آج بنا جا رہا ہے، آنے والوں کے سامنے عیاں ہے، اور جو چیز عیاں ہے، ظاہریت کی ہر آنکھ کے سامنے نمایاں ہے. ظاہر کے ہوتے ہوئے باطن کا کون لحاظ رکھتا ہے. بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے. ورنہ آسمانی انقلاب آ کر ہی تبدیلی لا سکتا ہے. جب سچ مچ آسمانی انقلاب آجائے، تو روئے زمین پر انسانیت کا دوبارہ آغاز ہوگا، اور ہر انسان اپنے اصل مقام کی طرف محو پرواز ہوگا!!

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email