تحریر

آج جو موضوع زیر تحریر ہے وہ خود "تحریر” ہے. تحریر کیا ہے؟ تحریر زریعہ اظہار مدعا ہے، تحریر ایک ہنر بے بہا ہے، تحریر رب کی طرف سے ایک عطا ہے. تحریر کی ایک صفت بقا ہے، بقا کی ضد فنا ہے،اور فنا ہر انسان کے لئے روا ہے. تحریر کراماکاتبین کا پیشہ ہے اور تحریر نتیجہ فکر و اندیشہ ہے۔

تحریر ایک خاموش گفتگو ہے ،تحریر میں رنگ و بو ہے، تحریر ایک جستجو ہے، سچ پوچھو تو تحریر میں ایک جادو ہے۔
کچھ باتیں ایسے ہیں جو تحریر میں لاۓ جاتے ہیں تقریر میں نہیں اور کچھ باتیں ایسے بھی ہیں جو تحریر وتقریر دونوں میں لائے جاتے ہیں. جو باتیں تحریر میں آتے ہیں، آنکھ کے بغیر نہیں سنے جاسکتے اور جو باتیں تقریر میں آتے ہیں کان کے بغیر نہیں دیکھے جاسکتے! کبھی کبھار آنکھیں سننے کا کام دیتی ہیں اور کان دیکھنے کا کام. منہ سے نکلے ہوئے باتوں کو آنکھ بند کرکے بھی سنا جاسکتا ہے، اور تحریر میں آنے والے باتوں کو کان بند کرکے بھی دیکھا جا سکتا ہے! دیکھنا آنکھوں کی صفت ہے اور سننا کانوں کی صفت. بامعنی الفاظ کے مجموعے پر مشتمل آواز کو سنا تو جاسکتا ہے مگر دیکھا نہیں جاسکتا. لیکن جس سے آواز نکلتا ہے اسے دیکھا بھی جاسکتا ہے. گویا دیکھنے کے لیے مجسم شکل اور سننے کے لیے آواز کی ضرورت ہوتی ہے. نہ ہی تحریر کوئی آواز ہے اور نہ ہی تقریر کوئی مجسم شکل. اس کے باوجود بھی آنکھوں سے سنا اور کانوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔

لکھتے وقت انسان بولتا ہے اور بولتے وقت انسان نہیں لکھتا. کیونکہ لکھے ہوئے باتوں کو پڑھا جاتا ہے اور بولے ہوئے باتوں کو سنا جاتا ہے. سنتے وقت انسان لاشعور میں دیکھتا بھی ہے اور دیکھتے وقت انسان لاشعور میں سنتا بھی ہے. دیکھنے اور سننے کا نام ہی زندگی ہے اور زندگی کا مقصد بندگی ہے.بندگی سے انسان شناسا ہے اور بندگی انسان کا خاصا ہے۔

جو انسان تحریر پڑھتا ہے اپنے ہی آواز میں تحریر کرنے والے کی باتیں سنتا ہے. باتیں اگر اس کے پسند کے ہوں تو پڑھنے والا لکھنے والے کا مداح بن جاتا ہے. یہ تحریر کا اثر ہے، یہ کمال بشر ہے، یہ زندگی کا سفر ہے، اسی سے آباد خشک وتر ہے. یہی شام وسحر ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسی میں خیر وشر ہے۔

سعدی، حافظ اور رومی جیسے خدا رسیدہ بزرگ گزر گئے، لیکن ان کی یاد ہنوز باقی ہے. ان کے تحریری نقوش آج بھی ادب کے آسمان میں منڈلا رہے ہیں اور ماہ و انجم کی طرح روشنی دے رہے ہیں. ان کی یہ روشنی دلوں پر پڑتی ہے، بشرطیکہ دلوں کے روشندان بند نہ پڑے ہوں. وہ خود روشنی کے شیدائی اور منبع روشنی کے فدائی تھے. چاند ستاروں کی طرح جو سورج کی بدولت روشن ہیں. نادان لوگ چاند ستاروں کو بھی روشنی کا مالک سمجھتے ہیں، حالانکہ روشنی کا مالک خود سورج ہے. کاش ہم فطرت کے اشاروں کو سمجھتے اور آگے بڑھتے۔

تحریر کے موضوع پر میں کچھ تحریر کررہا تھا، دل کے خیالات کی تفسیر کررہا تھا، یعنی آپ کو سمجھانے کی تدبیر کررہا تھا. اگر آپ نے مجھے نہیں دیکھا ہے آپ نے تو دیکھا ہے. لو یہ میری تحریر ہے اور یہ میرے خیالات کی تصویر ہے. جتنا پڑھنا چاہو پڑھ سکتے ہو اور جتنا دیکھنا چاہو دیکھ سکتے ہو. کچھ بھی پرسش نہیں اور نہ ہی کچھ بولنے میں کوئی بندش ہے. ہاں اتنی تعریف بھی نہ کرنا کہ مبالغہ کہلائے اور برے الفاظ سے اس طرح بھی یاد نہ کرنا کہ کسی کو بھی موقع ملتے ہی دہرائے، کیونکہ مجھ سے بہتر اور مجھ سے کمتر تحریر کرنے والوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email