ایس ایچ اوتھانہ مستوج اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مقتول اسلم بیگ کے ورثا پر دباو ڈال رہے ہیں ، عوامی حلقے

بریپ(نمائندہ زیل) ایس ایچ اور مستوج اپنے اختیارات کا ناجائز زاستعمال کرکے مقتول اسلم بیگ کے ورثا پر دباوڈال کر کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کررہےہیں مغزز چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اس کیس کا ازخود نوٹس لے کر اسلم بیگ کے قاتلو ں کو قرار واقعی سزا دے دیں ۔ ان خیالات کا اظہار بریپ میں منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء نے کیا ، اس جلسہ میں بریپ سے لےکر میراگرام 2سے تعلق رکھنے والے مردوخواتین کی کثیر تعداد شامل تھیں ۔

مقررین کا کہنا تھا کہ جب اسلم بیگ کے والد پردوم خان نے اپنے بیٹے کے قتل کا ایف آئی آر درج کرانے کے لئے تھانہ مستوج میں درخواست دی تو تھانہ کے ایس ایچ او شفیع شفا نے اسلم بیگ کے گھر آکر ان کے والد اور گواہوں کو دھمکی دی پھر عدالت سے رجوع کیا گیا تب جاکے اس کیس کا ایف آئی آر درج ہوا۔مقررین نے کہا کہ تب سے اب تک ایس ایچ او اسلم بیگ کے ورثا پر مسلسل دباو ڈال رہے ہیں اور کیس واپس لینے پر مجبور کررہے ہیں ۔

جلسہ کے اختتام پر پاس ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تھانہ مستوج کے پولیس نے گواہوں کے بیانات کو چھپا کر اپنی مرضی کا بیان عدالت میں داخل کیا ہے جس کی وجہ سے قاتل آج بھی آزاد ہے اور مقتول کے ورثا کو انصاف ملنے کی امید نہیں ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اس کیس کی تفتیش کے لیے تھانہ مستوج کے پولیس اہلکاروں نے اسلم بیگ کے والد سے گاڑی منگوا کر بریپ اور یارخون ژوپو میں جاکر تفتیش کی اور اسی مد میں 35ہزار روپے کرایہ ادا کیا گیا ۔ اب تھانہ مستوج اسلم بیگ کیس کے مختار ہدایت خان ولد حکیم خان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور اس کو چوبیس گھنٹے حوالات میں حبس بے جا میں رکھا گیا ۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ 24جنوری کو ہدایت خان دارالقضاء سوات میں پیشی پر جارہے تھے کہ چوئنج کے مقام پر ناکہ بند ی کرکے انہیں گاڑی سے اتار کر واپس گھر لایا گیا اور چھاپہ مارا گیا جس کی وجہ سے وہ پیشی سے غیر حاضر رہے ۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسلم بیگ کے پوسٹ مارٹم کے بعد جو نمونے حاصل کیے گئے تھے وہ بھی پولیس کی زیر نگرانی لیبارٹری لے جایا گیا اس میں ہم نے ساتھ جانے کاکہا تھا لیکن ہمیں ساتھ نہیں لے جایا گیا اور ہمیں شک ہے کہ اس رپورٹ میں بھی ردوبدل کی جائے گی ۔قاتل آج بھی علاقہ میں دندناتاپھر رہا ہے اور دھکمیاں دے رہا ہے کہ میں پولیس کمانڈوہوں کوئی میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ مقرریں نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کیس کا ازخود نوٹس لے کر مقتول کے ورثا کو انصاف دلا دے۔

یاد رہے اپریل کے دوسرے ہفتہ میں 28سالہ نوجوان اسلم بیگ کی اچانک موت واقع ہوئی تھی جسے طبعی موت کہہ کر دفن کیا گیا تھا جبکہ اس موت کے چھ ماہ بعد ان کی بیوہ ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ کے شادی کی تھی اور عوامی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں پھیل رہی تھی کہ شاید اسلم بیگ کی بیوی نے اپنے اس اشنا کے ساتھ مل کر ان کا قتل کردیا ہو، پھر پولیس تفتیش کے بعد دونوں نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی ، لیکن عدالت میں پیشی کے دوران دونوں اپنے بیانات سے مکر گئے یوں دونوں کی ضمانت ہوگئی ۔ اس قتل کا ایف آئی آر ان کی موت کے چھ ماہ بعد درج کیا گیا جبکہ ان کے لاش کا پوسٹ مارٹم 8ماہ بعد ہوا تھا ۔ پولیس ذرائع کے مطابق چونکہ بڑی دیر کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کی وجہ سے کیس کمزور ہے ، جبکہ پولیس نے اپنے تئیں ساری تحقیقات بالکل شفاف انداز سے کی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email