گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے حقیقی ہیروز

"بجلی گھر کا کریڈٹ لینے والے یہ مشٹنڈے!! جتنے منْہ اتنی باتیں ۔۔کوئی کہتا ہے کہ سارا کریڈٹ مسلم لیگ نون کو جاتا ہے اورکوئی کریڈٹ چُرا  دوسری پارٹیوں کی جھولی میں ڈالتا ہے۔ لیکن اصل واقعہ کچھ یوں ہے  کہ یہ 1985تھا جب علاقہ کوہ کے عوام بجلی کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ۔اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر کے دورۂ چترال کا پروگرام بنا اور پروگرام میں براستۂ سڑک بونی تک جانے کا شیڈول بھی تھا۔عوام کوہ عمومی طور پر اور اہل کوغذی خصوصی طور پر اس دورے سے عوامی سطح پر فائدہ اُٹھانے کی خاطر چند عمائدین کا ایک وفد تیار کیا جو کاری سے لے کر برنس تک لوگوں کو پیغام پہنچایا کہ وزیر اعلیٰ کی آمد پر مشیلک پُل پر مقررہ تاریخ کو جمع ہونا ہے۔۔

ان میں واحد بجلی کا مطالبہ لےکے  برنس،کجو ،راغ اور کوغذی کی تقریباً آدھی آبادی بجلی گھر کے مطالبے کو جاندار بنانے کی خاطر مشیلک پل میں اکھٹی ہو گئ تھی۔اس دن درخواست  کومرحوم استاد غفران اللہ نے ابتدائی شکل دے کر میرے حوالے کردیا کہ بیٹا اس کو مزید نکھار کر جلدی سے واپس مجھ تک پہنچادو۔میرے استاد کا حکم تھا جس نے خوش نویسی میں مجھ پر خصوصی محنت کی تھی اور بوقت ضرورت مجھ سے کام لیتے رہتے تھے۔میں نے اپنے قلم کا پورا زور صرف کیا۔مجھے بھی بجلی کے مسئلے کا احساس تھا۔درخواست تیار کرکے استاد محترم کے حوالے کردی اور جب وزیر اعلیٰ صاحب کی تشریف آوری ہوئی تو یہ درخواست پیش کردی گئی۔وزیر اعلیٰ نے درخواست اور پرشور بہتی صاف و شفاف ندی کو برابر دیکھتا جاتا تھا۔لوگوں سے مختصر خطاب میں انہوں نے علاقے کے لوگوں کے شعور کو بے حد سراہا اور کہا کہ ایسی ندی خدا نے بجلی گھر بنانے کے لیے ہی دی ہے جس پر بجلی گھر نہ بنانا کفران نعمت ہے۔وعدہ کیا کہ پشاور پہنچ کر سروے ٹیم بھیج دوں گا۔بہت جلد سروے ٹیم بھی آگئی اور آخر کار بجلی گھر پر کام شروع بھی ہوا اور تکمیل کو بھی پہنچا۔لیکن علاقۂ کوہ کے عوام اس کے باؤجود تاریکی میں ہیں۔منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔شاید یہی اس دنیا کی ریت ہے۔بوتا کوئی ہے اور کاٹتا کوئی ہے لیکن علاقہ کوہ کے اُن گمنام مجاہدین کو میں کیسے بھول سکتا ہوں جو اپنے ذاتی کام تج دے کر جلسے کو کامیاب بنانے آئے تھے۔ان میں بوڑھے بھی تھے جو لاٹھیوں کے سہارے بمشکل جلسہ گاہ پہنچے تھے۔وہ محترم شخصیات اکثرو بیشتر  اب منوں مٹی تلے  دب گئے۔جو زندہ ہیں وہ واپڈا کی بد انتظامی، اور اپنے نوجوانوں کی بےحسی اور خود اپنی قسمت پر ماتم کناں ہیں۔۔

ہاں !میں نے اس ساری کہانی میں ایک عظیم کردار کو آخر میں بیان کرنے کے لیے محفوظ رکھا تھا۔لوگوں کو بجلی کی اہمیت سے آگاہ کرنے، عوامِ کوہ کو بجلی گھر کے مطالبے پر اکھٹا کرنے اور لوگوں سے اور حکومتی ذمہ داران سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوے زیادہ تر پا پیادہ ہر دروازے تک پہنچا اور تمام لوگوں کو اس حوالے سے آگا ہ کیا  اور یہاں تک  کہ وزیراعلیٰ صاحب کو درخواست پیش کرنے تک سارے مراحل جس مردِ میدان نے اکیلا سر کیا وہ میرے محترم استاد اور استاد الاساتزہ جناب فیض الحسن  تھے۔اللہ تعالیٰ ان کو تادیر اپنے حفظ و امان میں رکھے۔عوامی خدمات ان کے بےشمار ہیں ۔

بجلی گھر کا قیام ناممکن تھا اگر محترم استاد کی انتھک محنت شامل حال نہ ہوتی۔کریڈٹ کے لیے لڑنے والے جان لیں کہ جس کو کریڈٹ جاتا ہے وہ کوغذی میں اب بھی بجلی کی آمد کا منتظر ہے۔اور پورے چترال بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کا گمنام ہیرو جس کی قدر کوئی  کیا جانے کہ کیسی محترم ہستی ہمارے درمیان اب بھی جی رہا ہے جس کو کسی صلے کی پرواہے اور نہ ستائش کی تمنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بجھ جائیں گے یہ چراغ جلتے جلتے

Print Friendly, PDF & Email