جنگلات کی شرح بڑھانے اور عوام کو جنگلات کی حفاظت کیلیے مرغوب کرنے کیلیے ریڈ پلس پروگرام کا افتتاح کیا۔

چترال(گل حماد فاروقی) جنگلات کی تحفظ اور عوام میں ان جنگلات میں اپنائیت پیدا کرنے اور اس سے آمدنی کے حوالے سے ریڈ پلس پروگرام کا انعقاد ہوا۔ ڈپٹی سیکرٹری ماحولیات حضرت علی اس موقع پر مہمان خصوصی تھے اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال مہناس الدین نے تقریب کی صدارت کی۔ پروگرام میں جنگلاتی علاقوں کے نمائندوں بشمول خواتین کو بھر پور انداز میں شرکت کی۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد عارف اور ڈویژنل فارسٹ آفیسر دیر ریئس خان نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔انہو ں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت جنگلات کی تحفظ اور اس سے مراعات لینے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر مثبت اثرات پڑ ے گی جس سے ان کو کثیر تعداد میں زر مبادلہ حاصل ہوگا۔ REDD ریڈیوسنگ ایمیشن آف ڈی فارسٹیشن اینڈ ڈی گریڈیشنReducing Emission of Deforestation and De-Gradation ریڈ پلس پروگرام کے تحت صوبے کے کاربن کریڈٹ کا تعین کرکے اسے بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیلیے پیش کیا جائے گا اور

اس سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ کو جنگلات سے مراعات لینے والے افراد میں رائیلٹی کی شکل میں تقسیم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صوبائی سطح پر ایک اہم اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ اس پروگرام کا آغاز چترال سے کرتے ہیں جہاں کے لوگ نہایت پر امن، مہذب اور تعلیم یافتہ ہیں یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں ضلع چترال میں تجرباتی بنیادوں پر ایک وادی میں اس پروگرام کو چلایا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں اس عوام کو اس پروگرام کے متعلق آگاہی دی جائے گی۔

سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر عمیر نواز نے بتایا کہ یہ نہایت مفید پروگرام ہے پہلے لوگ درخت کاٹ کر پیسے کماتے تھے اب درخت بچا کر اس کی حفاظت پر ان کو پیسے ملیں گے۔

جو لوگ درخت کی حفاظت کریں گے وہ بین الاقوامی سطح پر کاربن سٹاک کی نیلامی کے ذریعے کثیر تعداد میں ذرمبادلہ کما سکیں گے۔ کیونکہ ترقیاتی ممالک بین الاقوامی سطح پر اس نیلامی یعنی بولی میں حصہ لیں گے اور وہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے طور پر یہ کہہ سکیں گے کہ میں نے اتنا کاربن سٹاک خریدا ہے اور اتنے درخت کھڑے ہیں جو آکسیجن فراہم کرتے ہیں یہ اپنی نوعیت کا نہایت منفرد اور بہت مفید پروگرام ہے۔آگاہی ورکشاپ کے دوران شرکاء سے گروپ ورکنگ بھی کرایا گیا جس میں ریڈ پلس کو کامیاب بنانے، اس کے حوالے سے تحفظات اور تجاویز پر مبنی تین گروپوں میں کام تقسیم کیے گئے اور ہر گروپ نے اپنے تحفظات اور تجاویز پیش کئے۔کالاش قبیلے کی معروف سماجی کارکن خاتون دردانہ بی بی نے تجویز پیش کی کہ جنگلات کی حفاظت کیلیے خواتین کو بھی حصہ دینا چاہئے یعنی ان کو بھی ملازمت ملنی چاہئے۔ میجر سعید ، ناظم شیر محمد وغیرہ نے کہا کہ چترال میں سالانہ کروڑوں فٹ لکڑی جلانے کے طور پر استعمال ہوتی ہے اگر متبادل ایندھن مل جائے یعنی سستی بجلی یا گیس تو بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی روکی جاسکتی ہے۔

پروگرام کے آخر میں شرکاء کو ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جس کا مقصد تھا کہ ریڈ پلس پروگرام کے تحت دیگر ممالک میں لوگ درخت بچاکر کس طرح پیسے کماتے ہیں جو ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ کالاش قبیلے کی دردانہ بی بی نے جنگلات کی اہمیت کے حوالے سے کالاش زبان میں خصوصی طور پر نظم بھی پڑھی۔

پروگرام میں مردوں کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں مسلم اورکالاش خواتین نے بھی شرکت کرکے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

Print Friendly, PDF & Email