چترال(گل حماد فاروقی) گولین گول پن بجلی گھر سے مین ٹرانسمیشن لائن لے جانے کیلئے واپڈا کا ٹھیکیدار (نیٹرو کام) چترال کے محتلف علاقوں میں جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہے۔ بروز کے بعد اب واپڈا کے ٹھیکیدار نے بیر بولک کے مقام پر ہزاروں درخت کاٹ رہے ہیں۔ متاثرین نے اس کے خلاف بار بار آواز اٹھائی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
متاثرین کی درخواست پر ہمارے نمائندے نے متاثرہ جگہ کا دورہ کیا تو وہاں ہزاروں کٹے درخت زمین پرنظر آئے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ واپڈا کے ٹھیکیدار نے صرف پیسہ بچانے کیلئے بنجر زمین اور پہاڑی علاقے چھوڑ کر ہمارے زرعی زمین اور جنگلات میں سے بجلی کےٹرانسمینش لائن گزاررہے ہیں جس کیلئے اب تک ہزاروں تناور درخت کاٹے گئے ہیں۔ ان درختوں میں نہایت نایاب قسم کے درخت جسے شاہ بلوط کہتے ہیں وہ بھی شامل ہے جن کی بڑھوتری نہایت سست رفتاری سے ہوتی ہے اور اس کی عمر دس ہزار سال تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قومی درخت دیار، اخروٹ، خوبانی، ناشپاتی، املوک، شاہ توت اور دیگر میوہ دار درختوں کو بھی کاٹا گیا اور ان کا معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ تاثرین میں سرورالملک، عنایت الملک، خسرو الملک، فیاض الملک، اکبر الملک، داؤد الملک، امیر الملک، تنویر املک، اعجاز الملک، فضل خالق اور فدا محمد خان شامل ہیں۔
اس سلسلے میں جب انسپکٹر جنرل فارسٹ سید محمود ناصر سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے درختوں کی بے دریغ کٹائی پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے اسے ماحولیات کے لیے خطرناک قرار دیا۔ جس پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر چترال نے بھی رابطہ کیا ۔
گولین گول کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جاوید آفریدی سے جب پوچھا گیا کہ واپڈا کا ٹھیکیدار ہزاروں کی تعداد میں درختو ں کو کاٹ رہے ہیں اورمتاثرین کومعاوضہ بھی نہیں دیتا جبکہ واپڈا رولز میں زرعی زمین اور جنگلات کو بچانے کا ذکر ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فارسٹ رولز کے مطابق ان درختو ں کی ادائیگی کرتے ہیں جو ڈپٹی کمشنر چترال کے اکاؤنٹ کے ذریعے ان متاثرین میں یہ رقم تقسیم ہوتی ہے تاہم امیر الملک اور دیگر متاثرین نے اس کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ا ن کو ابھی تک ان درختو ں کے عوض کوئی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔صرف بجلی کے ٹاؤر کے نیچے جو زمین آتا ہے اس کے لیے تھوڑا بہت پیسے دئے گئے ہیں جو بہت کم ہیں مگر واپڈا والے ایک ٹاؤر سے دوسرے ٹاؤر تک جو بجلی کا تار بچھاتا ہے ان کے نیچے بھی درختوں کو کاٹ رہے ہیں اوراس کی ادائیگی نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ پتہ نہیں یہ پیسے کہاں جاتے ہیں۔ ہمیں تو کچھ بھی نہیں ملتا اس سلسلے میں بھی تحقیقات ہونا چاہئے۔
محکمہ جنگلی حیات کے سابق سب ڈویژنل آفیسر عنایت الملک کا کہنا ہے کہ یہ درختیں اور جنگلات پرندوں کے مسکن تھے جہاں بہت نایاب پرندے رہتے تھے اور ان کی چہچہاہٹ سے طبیعت سازگار ہوتی ۔ ان میں تیتر، وغیرہ انڈے دیتے اور یہاں بچے دیتے تھے مگر اب ان کا مسکن بھی ختم ہوگیا ہے۔ڈویژنل فارسٹ آفیسر چترال شوکت فیاض کا کہنا ہے کہ محکمے کی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پودے لگاکر جنگلات کو بڑھائے کیونکہ جنگلات کی کٹائی سے نہ صرف ماحول پر منفی اثرات پڑتے ہیں بلکہ سیلاب کی صورت میں یہ تباہی کا باعث بھی بنتا ہے۔
ان متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان ، وفاقی وزیر پانی و بجلی ، چئیرمین واپڈا سے اپیل کی ہے کہ ان کی زرعی زمین اور جنگل میں ہزاروں کی تعداد میں جو درخت کاٹے گئے ہیں ان کے عوض ان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے کیونکہ یہ نہایت پسماندہ لوگ ہیں اور یہ جنگل اور زمین ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا جسے واپڈا والوں نے کاٹ کر خ کردیا ہے ۔