چترال کے لیڈرز کا کام دوتین لاکھ روپے کے ترقیاتی اسکیمیں تقسیم کرنے تک محدود ہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

چترال (نمائندہ زیل ) چترال کا لیڈر آج بھی نہیں سمجھتا ۔ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ ویلج کونسل سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن تک سب انفرادی مسائل میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور سب کا کام دو تین لاکھ روپے کے ترقیاتی سکیمیں تقسیم کرنے تک محدود ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔنے  آج  چترال پریس کلب کے زیر اہتمام منعقد ہ ” مہراکہ”  پروگرام میں “چترال کے سلگتے مسائل “کے موضوع پر بطور مہمان مقرر خطاب کرتے ہوئے کیا

ڈاکٹر صاحب  نے کہا  کہ چترال کو پاکستان سے ضم ہونے کے بعد ایک طرف بصیرت  والی قیادت نہیں ملی ، اور دوسری طرف علاقے کے لوگوں کی  امن پسندی کا حکومتوں نے غلط فائدہ اُٹھایا ۔ جس کی وجہ سے چترال مسائل کی دلدل میں پھنستا گیا ۔ آج صورت حال یہ ہے ۔ کہ چترال کا مستقبل روشن ہونے کی بجائے  ظلمت کی تاریکیوں میں ڈوب رہا ہے ۔ اس لئے موجودہ دور  تقاضا  کرتا ہے ۔ کہ چترال کے تمام لوگ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ  کرتے ہوئے  صاحب بصیرت  قیادت کو سپورٹ کریں ۔ جو بھنور میں پھنسی اس کشتی کو پار لگا سکے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ نہایت  بدقسمتی کی بات ہے  کہ چترال 1969میں ریاست ختم ہونے کے موقع پر ضلع بنا اور آج بھی 14850مربع کلومیٹر رقبے پر محیط یہ وسیع وعریض خطہ دو ضلع نہ بن سکا ۔ جب کہ اس کے مقابلے بہت کم رقبے کے حامل ضلعوں کو دو سے تین اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے ۔    ڈاکٹر صاحب چترال کی ناگفتہ بہہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ  چترال میں صرف 185کلومیٹر پختہ سڑک یں   ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے دیر کے آٹھ ہزار مربع کلومیٹر میں کوئی بھی قصبہ اور گاؤں پکی سڑک سے محروم نہیں ہے ۔   انہوں نے کہا  کہ چترال امتیازی سلوک کا  ہر دور میں شکار رہا ہے ۔ ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے ۔ ادنی ٰبیماری کے علاج کیلئے اب بھی غریب لوگوں کو ملک کے دوسرے شہروں کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہسپتال میں جو مشینری موجود ہیں  ۔ وہ بھی قابل  استعمال نہیں   لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے گولین گول ہائیڈو پاؤر پراجیکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا  کہ یہ کتنا افسوس کا مقام ہے ۔ کہ گولین ہائیڈل پاور پراجیکٹ 1987میں ایکنک میں منظور ہوا ۔ اور ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا ہے ۔

چترال تعلیمی بورڈ  کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے  کہا کہ چترال تعلیمی بورڈ   ابھی تک نہیں بنا ۔ اور سالانہ 15کروڑ روپے چترال سے تعلیم کی مد میں دوسرے اضلاع کو منتقل ہو رہے ہیں ۔ چترال کا اپنا تعلیمی بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ ٹاپ 20 ایوارڈ سے بھی طلبہ محروم ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد کسی بھی چترالی سٹوڈنٹ کو سکالرشپ پر بیرون ملک نہیں بھیجا گیا ۔

انہوں نے کہا  کہ تعلیم کے ساتھ گہری محبت رکھنے والے چترالی طلبہ کیلئے اب تک ٹیکنکل کالج  اورکیڈٹ کالج کی سہولت میسرنہیں ہے ۔ چترال کا جو بھی بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتاہے ۔ اُسے چترال سے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے حکومت کے طریقہ کار پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا  کہ جو لوگ امن اور شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اُن کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی  اور دانستہ طور پر پُر امن لوگوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ لیکن چترال کے لوگوں کو اُن کی تہذیب اور امن سے مربوط مضبوط روایات ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔اس لئے حکومت کو چاہیے  کہ وہ چترال کے مہذب لوگوں کیساتھ وہ رویہ اپنائے  جو تشدد کی زبان سے اپنے مسئلے حل کرانے والے لوگوں سے مختلف ہو ۔

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کہا  کہ چترال کے لوگوں میں باہمی اتفاق و اتحاد کی شدید ضرورت ہے اور گھمبیر مسائل کے حل کیلئے مثبت سوچ اور وژن رکھنے والی قیادت کو ڈھونڈکر اُس کو سپورٹ کرنا چاہیے ۔

انہوں نے قیادت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہماری تمام قیادتیں صحیح معنوں میں اپنے اپنے دور میں ذمہ داریاں انجام دیتے ۔ تو قوم کو اس مشکل اور تشویشناک صورت حال سے دوچار نہ ہونا پڑتا ۔

پروگرام کے آغاز میں  نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ نے  ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کی چترال کیلئے صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی ۔ جبکہ پروگرام کو سمیٹتے ہوئے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج آف منیجمنٹ سائنسز چترال کے پرنسپل صاحب الدین نے کہا  کہ چترال کے لوگوں کو قومی مسائل کے حل کیلئے اپنے تمام اختلافات ختم کرنی چاہیے ۔ چترال میں بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے ۔ ایجوکیشن کے باوجود نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل رہے ۔ اس لئے چترال میں کاٹیج انڈسٹریز لگانے چاہیں ۔ اگر روزگار نہ ملا ۔ تو چترال کا موجودہ پُر امن ماحول بد امنی کا شکار ہو جائے گا ۔

پروگرام  میں پروفیسر صاحب الدین ، نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ ، عنایت اللہ اسیر ، امیر اللہ اعزازی مہمانوں کے علاوہ سیاسی ، سماجی اور علمی حلقوں کے   نمائدوں نے  کثیر تعداد میں شرکت کی ۔

اختتام پر شرکاء نے مہمان مقرر سے سوالات کیے ۔ جن کے انہوں نے تسلی بخش  جوابات دیا ۔

Print Friendly, PDF & Email