جشن قاق لشٹ میں "سیاہ کمان”سے نشانہ بازی کا مقابلہ توجہ کا مرکز ہوتاہے

قاق لشٹ چترال(زیل نمائندہ)جشن قاق لشٹ کے موقع پر دوسرے مقامی کھیلوں اور ثقافتی مقابلوں کے ساتھ ساتھ  مقامی ہتھیار "سیاہ کمان” سے نشانہ بازی کا مقابلہ شائقین کی توجہ کا مرکز ہوتاہے۔ قدیم ہتھیار سیاہ کمان میں بارود  ڈال کر لوہے کے چھرے بطور گولی رکھ کر اسے آگ کے پُلتے سے جلاتے ہوئے نشانہ باز ی کی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں "شیت دیک” کہا جاتا ہے۔زمانہ قدیم میں چترال کے مختلف مقامات پر کسی خوشی کے موقع پر سیاہ کمان سے نشانہ بازی کا مقابلہ ہوا کرتا تھا جسے عرف عام میں "پلاف زار” کہتے ہیں۔بیٹے کی پیدائش یا شادی کے موقع پر دور دراز سے نشانہ باز روایتی ہتھیار سیاہ کمان کو لے کر حاضر ہوتے تھے اور ہوائی فائر(ڈازی) کے ساتھ ساتھ نشانہ بازی بھی کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ روایت ختم ہوتی چلی گئی اور اب سیاہ کمان کا ہتھیار شازو نادر دکھائی دیتاہے۔جشن قاق لشٹ کے موقع پر اس مقامی ہتھیار سے نشانہ بازی کا مقابلہ ہوتا ہے اور دور دراز سے  نشانہ باز سیاہ کمان کو لے کر مقابلے میں شرکت کرتے ہیں۔

حسین زرین رضاکارانہ طور پر اس کھیل میں ہر سال حصہ لے رہا ہے اور کئی مرتبہ اس مقابلے کا فاتح رہا ہے کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا اصل ثقافت ہے۔ ہمارے بزرگ جب آج سے پانچ سو سال پہلے شکار کے لیے  جایا کرتے تھے تو یہ لباس پہن کر اس بندوق سے شکار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس جو بندوق ہے وہ تین سو سال پرانا ہے جو اس کے پر دادا درانی نے بنایا تھا۔ ان کا شکوہ ہے کہ چترال میں فٹ بال، کرکٹ، پولو ، ہاکی اور دوسرے کھیلوں کو اہمیت تو دی جاتی ہے جو ملک کے ہر جگہہ کھیلا جاتا ہے مگر سیاہ کمان کا مقابلہ صرف اور صرف چترال کی خصوصیت ہے اور صرف یہاں کھیلا جاتا ہے مگر آج تک اس کو سرکار کی طرف سے پذیرا ئی نہیں ملی۔ان کامزید کہنا ہے کہ سب شہزادہ سکندر الملک تحصیل ناظم تھے تو انہوں نے مجھے ایوارڈ دیا تھا اور بریگیڈئیر نعیم اقبال جو یہاں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نقد انعام بھی دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کے لیے  یہ روایتی لباس پہنا پڑتا ہے اور اس میں ہوتا یوں ہے کہ اس بندوق میں پہلے لوہے کے چھرے یا گولی نما سکہ ڈالا جاتا ہے اس کے بعد اس میں بارود ڈالا جاتا ہے اور ماجس سے ایک رسی کو جلاکر اس کے مخصوص حصہ کے اوپر رکھا جاتا ہے جونہی بارود گرم ہوتا ہے اس میں دھماکہ سا ہوتا ہے اور اس دھماکے سے وہ گولہ باہر کی طرف نکلتا ہے جو سیدھا جاکر اپنے نشانے پر پڑتا ہے اس میں پچاس میٹر اور سو میٹر کے فاصلے تک نشانہ مارا جاتا ہے ۔
غلام نبی جو بونی آوی لشٹ کا باشندہ ہے اس کا کہنا ہے کہ اس سیاہ کمان سے ہم نے ماضی میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے مگر حکومت پاکستان نے پچھلے چالیس سال سے اس پر پابندی لگادی ہے جو ہم نے رضاکارانہ طور پر جمع کی مگر اس کے بدلے ہمیں کوئی مراعات نہیں ملی۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباو اجداء نے اسی سیاہ کمان سے سکھردو کو بھی فتح کیا ہے اور ریاست چترال کی طرف سے ارندو کے مقام پر افغان فورس کا مقابلہ کیا ہے ۔شاہ سلیم میں بدخشان سے آئے ہوئے فوجیوں کا مقابلہ اسی سیاہ کمان سے کیا گیا ہے اور اسی طرح بروغل میں واخان اور تاجکستان وغیرہ سے آنے والے حملہ آؤروں کو اس کی مدد سے پسپا کیا ہے۔
عبد الباقی جو پچھلے چالیس سالوں سے سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لے رہا ہے اور اس کھیل کو فروغ دے رہاہے  ان کا شکوہ ہے کہ پہلے جب چترال کے انتظامیہ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا وہ رضاکارانہ طورپر اس کھیل کو یہاں آکر کھیلتے اور اس مقابلہ میں حصہ لیتے ہوئے سیاحوں کو محظوظ کراتے مگر اس سال انتظامیہ کے پاس کافی فنڈ آیا ہوا ہے مگر اس کے باؤجود بھی نہ تو ان کی کوئی حوصلہ افزائی کی گئی نہ کوئی نقد انعام دیا گیا اور نہ ہی ان کے ساتھ مالی مدد کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بندوق کی دیکھ بال بھی نہایت مشکل ہے مگر حکومت کی طر ف سے اس کی مرمت کے لیے  بھی ان کو کوئی فنڈ نہیں دی جاتی۔ سیاہ کمان سے نشانہ بازی  چترال کا نہایت مقبول اور پسندیدہ کھیل ہے جو اب حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور مستقبل میں اس کے قصے صرف کتابوں میں ملیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email