All-focus

دمیل کے نوجوان احسان اللہ کا مخیر حضرات سے مفت علاج کی اپیل

دمیل (گل حماد فاروقی) دمیل ارندو  سے تعلق رکھنے والا 19 سالہ احسان اللہ حادثے کے بعد معذور ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ پچھلے چھ ماہ سے چارپائی پر پڑا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ارندو کے رہائشی احسان اللہ ولد آباد خان جو جغور دواشش میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں سڑک کے ایک حادثے میں سپاینل کارڈ یعنی کمر ٹوٹ گیا اور اس کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہوگئی ہیں۔
ہمارے نمائندے نے خصوصی طور پر اس گھر کا معائنہ کیا جہاں جواں سال احسان اللہ بستر مرگ پر پڑا ہے۔ ان کے مطابق 23 اکتوبر 2017 کو دنین کے مقام پر وہ حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کا کمر ٹوٹ گیا۔ اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا جہاں اسے فوری طور پر لیڈی ریڈنگ ہسپتا ل پشاور ریفر کیا اور اسے ایمبولنس میں پشاور لے گئے کیونکہ چترال ہسپتال میں کوئی آرتھوپیڈک سپیشلسٹ نہیں ہے۔ LRHپشاور میں 13 دن تک داخل ہونے کے بعد ہسپتال کے عملہ نے اسے یہ کہہ کر گھر بھیجا کہ اس کا یہاں کوئی حاص علاج نہیں ہے اور گھر پر دوائی کا استعمال جاری رکھیں۔ احسان اللہ کا کہنا ہے کہ سات دن تک دوائی کھا تا رہا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا اور میرے دونوں پاؤں نے مکمل طور پر کام چھوڑ دیا مجھے بشری تقاضا پورا کرنے کیلئے بوڑھا باپ باتھ روم لے جاتا۔احسان اللہ کا کہنا ہے کہ اس کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر بنے اور دکھی انسانیت کا مفت علاج کرے مگر اسے کیا پتہ وہ خود علاج کا محتاج ہوگااور وہ بھی لاعلاج ۔ ان کا کہنا ہے کہ چارپائی پر پڑے ہوئے ان کی کمر میں کیڑے پڑ گئے تو اسے ایک بار پھر لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور لے گئے جہاں اس کی زخموں سے کیڑے نکال کر اس کی مرہم پٹی کی مگر ہسپتال کے عملہ نے پھر اسے ڈسچارج کیا۔ اسے حیات آباد میڈیکل کمپلکس اور پھر حیات ٹیچنگ ہسپتال پشاور دونوں جگہہ اس امید پر لے گئے کہ شائد وہاں ان کا علاج ہوسکے مگر ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔
آباد خان نے بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کو علاج کیلئے ڈبگری گارڈن پشاور میں نجی کلینک لے گیا کہ شائد وہاں اس کا صحیح علاج ہوسکے ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف خان اس سے علاج کیلئے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا جو کہ میرے بس کی بات نہیں اور پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میرا بیٹا ایک بار پھر بغیر علاج کئے واپس چترال لایا گیا۔
آباد خان کا کہنا ہے کہ اس نے ارندو دمیل اس لیے  چھوڑ کر جغور میں کرائے کے مکان میں رہائش احتیار کرلی کیونکہ وہاں کوئی خاص تعلیمی ادارہ نہیں ہے اور اپنے بچوں کو تعلیم کی خاطر کرائے کے کچے مکا ن میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے دو بیٹیاں اور چھ چھوٹے بیٹے ہیں جو چترال میں زیر تعلیم ہیں خود بوڑھا ہونے کے علاوہ بیمار بھی ہے۔ آباد خان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ صحت مند تھا وہ محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا علاج کرواتا رہا مگر اب تو اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہے کہ اپنے بیٹے کو ٹیکسی میں چترال ہسپتال سے علا ج کروائے۔
انہوں نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ خیبر پحتونخوا اور مخیر حضرات سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ جواں سال احسان اللہ کا مفت علاج کرایں کیونکہ اس کے بیٹے کا علاج آغا خان ہسپتال کراچی میں ممکن ہے مگر اس کے پاس اتنا رقم نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا علاج وہاں سے کرائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے لیے  کوئی مصنوعی اعضاء بھی عطیہ کی جائے تاکہ وہ کم از کم خود بیت الخلاء جاسکے اور چل پھرنے کے قابل ہوسکے۔

Print Friendly, PDF & Email