چترال میں خواتین کے لیے بازار ہرگز قبول نہیں،مولانا عبدالاکبر چترالی

پشاور(نمائندہ زیل)گزشتہ دنوں سی سی ڈی این کے زیر انتظام کاروباری خواتین کے ایک اجلاس میں سرتاج احمد خان نےچترال میں خواتین کے لیے الگ شاپنگ سنٹر کے قیام اور خواتین کو کاروبای لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے حوالے سے ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس کے بعد چترال میں دینی جماعتوں نے اس فیصلےکو تنقید کا نشانہ بنایا۔جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام (ف)  کےرہنماؤں کا  طویل مشاورتی اجلاس بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوا۔اطلاعات کے مطابق پیر کے دن ہونے والے مشترکہ اجلاس میں آئندہ  لائحہ عمل کے حوالے سے فیصلہ متوقع ہے۔ادھر پشاور میں جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے اپنے ایک اخباری بیان میں چترال میں خواتین بازار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ چترال کی ثقافت اسلامی ثقافت ہے چترالی ثقافت میں عورت کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اسلام نے بحیثیت خاتون عورت کو دیے ہیں عورت کو مادر پدر آزدی دیکر اور گھسیٹ کر با زاروں کی زینت بنانا مغرب کا ایجنڈا ہے اسلام کا نہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ  اسلام عورت کو حیا اور پاک دامنی کا درس دیتا ہے اور ہر وہ کام جو بے حیائی کے زمرہ میں آتا ہے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت چترال کی خواتین کو بازاروں کی زینت بنانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ہم کسی بھی صورت خواتین بازار کے نام پر چترالی خواتین کو بے توقیر نہیں ہونے دیں گے ۔  مولانا چترالی نے ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے  کہ وہ خواتین کے لیے الگ بازارکو وجود میں نہ آنے دے بصورت دیگر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا اور ہم اس کے خلاف بھر پو ر تحریک چلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بعض این جی او ز چلانے والے لوگ جو چترالی نہیں ہیں چترال کی ثقافت کو نہ جانتے ہوئے تباہ کرنے پر تُلے ہو ئے ہیں ان لوگوں کو ہر گز یہ حق انہیں پہنچتا کہ وہ ہماری ثقافت میں مداخلت کر یں ۔

Print Friendly, PDF & Email