All-focus

لواری ٹاپ میں برفانی تودے تلے دب کر جاں بحق ہونے والے باپ بیٹے کے اہل خانہ کامدد کی اپیل

چترال(گل حماد فاروقی) ٹوٹا پھوٹا مکان، ٹپکتے ہوئے دیوار، پرانے برتن اور گھر میں موجود ایسے بچے جنہوں نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور
ننگے پیر کھڑے ہیں اپنے لخت جگر کی کتابوں، سکول یونیفارم، کاپی اورکتابوں کو سینے سے لگاکر روتی ہوئی عبید اللہ کی ماں۔ یہ ہے مرحوم نور
الدین کے گھر کا نقشہ جو یکم فروری کو لواری ٹاپ پر ایک جان لیوا برفانی تودے تلے دب کر نہ صرف وہ بلکہ اس کا جواں سال بیٹا عبید اللہ بھی جان
بحق ہوئے۔ مقامی رضاکاروں نے سات دنوں بعد ان کی لاشیں نکال کر ورثاء کےحوالے کیے مگر نورالدین کے گھر میں ابھی تک ماتم بچی ہوئی ہے۔
ہمارے نمائندے نے نگر کے اس دور دراز گاؤں جاکر نورالدین مرحوم کے اہلحانہ سے بات

چیت کی اور معلوم کیا کہ محکمہ پی ٹی سی ایل نے ابھی تک ان
لوگوں کے ساتھ کوئی امداد بھی کیا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ نور الدین PTCL میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر ملازم تھا اور لواری ٹاپ پر نصب ٹیلیفون کے ٹاؤر میں جہاں سولر سسٹم کے ذریعے بیٹری کام کررہے ہیں ان کو درستگی کے لیے ٹیلیفون کے ایس ڈی او نے بھیجا تھا۔ان کے اہل خانہ نے کہا کہ امداد تو دور کی بات ہے  ابھی تک انہوں نے فاتحہ خوانی کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور نہ ہی ان کا حال احوال پوچھا۔فضل ودود جو نور الدین کا بھتیجا ہے کا

کہنا ہے کہ یہ نہایت غریب لوگ ہیں،نور الدین پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں کا واحد کفیل تھا اب ان کے مرنے کے بعد ان کے بچوں پر فاقے گزر رہے ہیں۔احسا ن اللہ نورالدین کا بیٹا ہے اس نے بتایا کہ 31 جنوری اور یکم فروری کو ٹیلیفون ایس ڈی او دیر اور ڈویژنل انجنیر تیمرگرہ نیاز اور ایاز خان نے بدستور میرے والد کو بار بار فون کیا کہ میڈیا خراب ہے اور شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹری کام نہیں کر رہے ہیں لہٰذا ڈیزل لے جاکر لواری ٹاپ پر نصب ڈیزل جنریٹر میں تیل ڈال کر اسے چلائے تاکہ بیٹری وغیرہ چارج ہوجائے اور ٹیلفون کا نظام کام شروع کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میرا والد اور میرا بھائی ہمارے بہنوئی کے ساتھ اوپر چڑھ کر برف پوش پہاڑ پر سفرکررہے تھے تاکہ جنریٹر میں تیل ڈال کراسے چلائے اس دوران ان پر برفانی تودہ گرگیا جس کے نیچے دب کر میرا باپ اور بھائی عبید اللہ دونوں جاں بحق ہوئے۔ پی ٹی سی ایل والوں سے ہم نے بارہا ایکسکیویٹر مشین مانگا مگر نہیں دیا مقامی

All-focus

رضاکاروں اور ریسکیو 1122 والوں نے محنت کی مگر ناکام رہے آخرکار ریسکیو والے بھی چلے گئے اور مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان دو لاشوں کو برف سے نکالا۔ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک پی ٹی سی ایل والوں نے ا ن کے گھر آکر فاتحہ خوانی بھی نہیں کی۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے محکمہ کے اہل کاروں کے خلاف تھانہ عشریت میں قتل بالسبب کے دفعہ  کےتحت پرچہ چاکنے کی درخواست بھی دی ہے مگر ابھی تک پولیس نے مقدمہ درج نہیں کی ہے۔عبید اللہ جماعت نہم کا طالب علم تھا اور اسی روز اسے بھی والد نے اپنےساتھ لے گیا تھا جو کبھی واپس نہیں آیا۔ اس کی ماں اور بہنیں اس کی کتابیں، کپڑے اور کاپیاں چھوم چھوم کر روتی ہیں اور اسے یاد کرتے ہیں۔رحمت عزیز ویلیج کونسل نگر کا نائب ناظم ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ نہایت غریب لوگ ہیں اور نور الدین مرحوم ان کا واحد کفیل تھا ان کے مرنے کے بعد ان کے بچے فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے محکمہ پی ٹی سی ایل اورحکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ نورالدین اور اس کے بیٹے کی تلافی کے طورپر ان کے دو بیٹوں کو ملازمت دی جائے اور ان کے ساتھ مالی مدد بھی کی جائے۔اس سلسلے میں پی ٹی سی ایل کے ایگزیکٹیو نائب صدر وجیہہ انور، جنرل منیجرسید خلیل، حبیب اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ عزیر سے بھی فو ن پر بات ہوئی تھی جنہوں نے اس وقت یقین دہانی کرائی تھی کہ جب یہ لاشیں نکل جائے تو وہ وہاں آکر ان کو ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کریں گے مگر غم زدہ حاندان ابھی تک ان کی راہ تکتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email