فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم۔۔ خواتین ضلع کونسلرز سراپا احتجاج

چترال ( نمائندہ زیل )ضلع اسمبلی چترال کی چارخواتین کونسلز فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم اور مسلسل نظر انداز کرنے کے خلاف اسمبلی اجلاس کابائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کی ہے۔ ضلع کونسل کا تین روزہ اجلاس کنوینئر مولانا عبدالشکور کی زیر صدارت ڈسٹرکٹ اسمبلی ہال میں جاری تھا اس دوران ضلع کونسل کے چاراراکین احتجاجی بینراٹھائے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے میدان میں آگئیں۔خواتین کونسلرز جن میں آل پاکستان مسلم لیگ کے حصول بیگم ، پی ٹی آئی کے آسیہ انصار  اورصفت گل اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شمشاد بیگم شامل ہیں ضلع کونسل کے کنوینئر  سے مطالبہ کیا   ہے کہ انہیں ملنے والے فنڈزنہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ان کے اجراء میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔احتجاج اور اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والی خواتین ممبران ضلع کونسل کا موقف ہے کہ  فنڈ کی تقسیم میں ضلع ناظم ان کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کر رہا ہے ۔ حاجی مغفرت شاہ  اپنے حامی خواتین اور پارٹی کے کونسلز کو سالانہ ترقیاتی سکیمز کیلئے فی ممبر بارہ لاکھ روپے فراہم کی ہے جبکہ اُنہیں صرف آٹھ لاکھ روپےملے ہیں۔احتجاجی خواتین کونسلز کا کہنا ہے کہ  ضلع کونسل میں فنڈ زکی تقسیم دو طرح سے ہوتی ہے ۔ضلعی حکومت کے حامی خواتین کو فنڈز کی تقسیم کا معیار حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی خواتین سے الگ ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آسیہ انصار ، حصول بیگم  اور شمشاد فراز نے کہا  کہ موجودہ ضلع کونسل نے خواتین کی جس طرح توہین کی اُس کی مثال چترال کی بلدیاتی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ان کا کہنا ہے کہ  انصاف اور اسلام کے دعویدار جماعت اسلامی اور جے یو آئی(ف) کی مخلوط ضلعی حکومت نے خواتین ممبران کے ساتھ انتہائی عدم مساوات کاسلوک کررہی ہے۔انہوں نے صوبائی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا  کہ خواتین کی حیثیت اگر نہیں ہے  تو انہیں عوامی نمائندگی میں موقع فراہم کرکے کیوں بے توقیر کیا جارہاہے۔ موجودہ ضلع کونسل میں حزب اختلاف کی خواتین کو ضلع ناظم اور کنوئنیر تیسرے درجے کی ممبر تصور کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اے ڈی پی سکیم کیلئے اجلاس بلانے کی بجائے انفرادی طور پر بذریعہ فون سکیم مانگے جارہے ہیں جو کسی طور پر بھی صحیح نہیں ہے ۔احتجاج کرنے والی خواتین صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا  کہ ضلع ناظم اور نائب ضلع ناظم کو چترال کے حزب اختلاف کی خواتین ممبران کے ساتھ امتیازی سلوک سےروکا جائے بصورت دیگرہم اپنی آواز کسی بھی فورم تک پہنچانے سے دریغ نہیں کریں گے۔واضح رہے احتجاج کرنے والی خواتین ممبران ضلع کونسل  کے اجلاسوںمیں خطیر رقم کے اجراء کے لیے اسمبلی فلور میں آواز اٹھارہی ہیں اور آج نوبت مذمتی بینر اٹھا کر احتجاج تک پہنچی ہے۔

دوسری طرف خواتین کونسلز کے احتجاج کےحوالے سے زیل نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کنوینئر ضلع کونسل مولانا عبدالشکور کا کہنا تھاکہ  موجودہ ضلع اسمبلی میں مخصوص نشتوں پر آٹھ خواتین  ہیں جن میں چار کا تعلق ٹریژیری بینچ اور چار حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہے۔رول آف بزنس کے تحت ان کوٹوٹل اے ڈی پی سے پانچ فیصدفنڈملتاہے اور تمام خواتین میں برابر تقسیم ہوتی ہے۔ ضلع نائب ناظم نے کہا کہ 2015-16 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں پانچ فیصد فنڈ کا اجرا ہواتھااور 2016-17 اور 2017-18 کے اے ڈی پی میں  بھی اس تناسب سے فنڈز کااجراء ہوا ہے۔اس کے ساتھ ضلع ناظم اور نائب ناظم کے صوابدیدی فنڈز میں سے بھی خواتین کونسلرز کو فنڈز ملتاہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی خواتین کونسلرز کو فنڈکی فراہمی میں امتیازی سلوک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا عبدالشکور کا کہنا تھا کہ حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والی خواتین  ہر فورم میں ضلعی حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔کسی بھی قرارداد کو منظور یا مسترد کرنے میں ان کے ہاں سے ہاں ملاتی ہیں جبکہ حزب اختلاف کی خواتین کونسلرزایوان میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی کرتی ہیں۔اگر ان حالات میں فنڈز کا اجراء مساویانہ سطح پر ہوجائے تو وہ حزب اقتدار کی خواتین کونسلرز کو منظور نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے بار بار شکایت بھی کرتی ہیں۔ کنوینئر ضلع اسمبلی نے کہا کہ اگر احتجاج کرنے والی خواتین فنڈز کے سلسلے میں راضی نہیں ہیں تو انہیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر افہام تفہیم سے مسلے کا حل تلاش کرنا تھا لیکن وہ احتجاج پر اتر آئے جو بقول انکے صحیح نہیں ہے۔ مولانا عبدالشکور کا مزید کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والی خواتین کو کوئی تیسری قوت اکسا رہی ہے جس کو دینی جماعتوں کے اتحاد کے نتیجے میں بننے والی حکومت ہضم نہیں ہورہی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email