سوشل میڈیا پر متنازعہ پوسٹ کرنے والوں کے خلاف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا مطالبہ

چترال (زیل ڈیسک) اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا ہزہائنس پرنس کریم  آغاخان کے چترال کے دورے کے موقع پر سوشل میڈیا پر چند افراد کا متنازعہ پوسٹ اور رائےاس علاقے کی سنی کمیونیٹی میں بے چینی کی صورتحال پیدا کی تھی۔ دروش میں احتجاجی جلسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ ہوا تھا۔ پیر کے روز تحصیل ناظم چترال مولانا محمد الیاس کی کال پر شٹرڈاؤن اور پہیہ جام  ہڑتال کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل رہی۔ ٹاؤن چترال میں بعض تعلیمی ادارے،پبلک ٹرانسپورٹ، بنک اور ہوٹل بند رہے۔ علاقے کے مختلف مقامات پر احتجاجی جلوس اور مذمتی قرار داد پیش ہونے کے ساتھ ساتھ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا  بھی مطالبہ ہوا۔ علاقے میں ہیجانی کیفیت کو ختم کرنے اور معمولات زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے پیر کے دن ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرکیپٹن(ر) منصور امان کے دفتر میں ایک غیر معمولی نشست ہوئی۔ میٹنگ میں ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ، کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل معین الدین ، ضلع نائب ناظم چترال مولانا عبدالشکور، امیر جماعت اسلامی مولانا جمشید احمد، جے یو آئی(ف) کے ضلعی انفارمیشن سیکریٹری مولانا حسین احمد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال منہاس الدین، اسسٹنٹ کمشنر چترال عبد الاکرم اور چترال پریس کلب کے صدر ظہیرالدین نے شرکت کی۔ شرکاء نے طویل گفت وشنید کے بعد اس واقعے میں ملوث افراد کے تعین  کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے اور احتجاج ختم کرنے پر متفق ہوئے۔ میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمیعت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے ضلعی رہنماؤں نے چترال کے پرامن فضا کو خراب کرنے اور ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ چترال کے پائیدار امن کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ اس موقع پر کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل معین الدین نے کہا کہ کسی بھی علاقے کے پائیدار امن کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ عوام، ضلعی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی کامرتکب ہوا تو پائیدار امن کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتاہے۔ کمانڈنٹ  چترال سکاؤٹس نے عوام سے پرزور اپیل کی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دیں۔

واضح رہے  کہ چترال میں بے چینی کی صورتحال اور غم و غصے کی وجہ موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی سلیم خان کا سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ پوسٹ بنی  جس پر ایک شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے سنی کمیونیٹی کی جذبات کو مجروح کیا تھا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چترال میں موجود سنی اور اسماعیلی کمیونیٹی  بہتر عوامی مفاد اور چترال کے پائیدار امن کی خاطر مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف ایک ہوجائیں۔چترال میں  مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیکر ہی اس  علاقے کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتاہے۔

Print Friendly, PDF & Email