سرکاری خزانے کو ایک ارب سے زیادہ نقصان،پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا نوٹس،تمام ریکارڈ طلب

چترال(گل حماد فاروقی) ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن چترال کے صدر ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کو محکمہ مواصلات کی فنڈ میں غبن اور کام نہ کرنے کے باوجود ٹھیکداروں کو ادائگی کے خلاف گزشتہ دنوں  درخواست دی تھی جسے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰ افریدی نے رٹ پٹیشن میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا ۔کیس کی پیروی کرتے ہوئے ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے چترال کی نمائندگی کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ میں  پیش ہوئے۔ ڈویژن بنچ کی سربراہی چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ  خود کررہے تھے اور جسٹس محمد یونس خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل قیصر علی سے صوبائی حکومت کے بابت استفسار کیا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے چترال میں بونی مستوج سڑک بروقت کیوں تعمیر نہیں کیا۔
اس پر جرح کرتے ہوئے ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے ڈویژن بنچ کو بتایا کہ بونی مستوج سڑک کی تعمیر کے لیے 15.12.2008 میں ٹینڈر ہوا تھا اس وقت اس کا تخمینہ لاگت 491.224 ملین تھا ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے افسران اور ٹھیکدار کی ملی بھگت سے ٹھیکدار کو کام کی تکمیل سے پہلے ادائگی بھی ہوئی مگر کام نہیں ہوا اور بعد میں محکمہ انسداد رشوت ستانی نے بھی اس بابت محکمے کے افسران اور ٹھیکداروں کے خلا ف مقدمہ درج کیا تھا جس میں کچھ رقم واپس بھی لیا گیا تھا مگر پورا رقم واپس نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسی روڈ کی دوبارہ ٹینڈر 8 اپریل 2015 کو ہوا اور اب کے بار اس سڑک کا تحمینہ لاگت 2323.91 ملین تھی۔ یعنی اس وقت یہ سڑک پچاس کروڑ میں ہوتا تھا اب2 ارب32 کروڑ میں ہورہا ہے اور یوں سرکاری خزانے کو ایک ارب سے زیادہ کا رقم کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ساجد اللہ ایڈوکیٹ  نے فاضل عدالت کو بتایا کہ بونی تورکھو روڈ کا ٹینڈر 21.12.2010 کو ہوا تھا جس کا تخمینہ لاگت 279.922 ملین تھی۔ جس میں ٹھیکداروں کو اخراجات سے زیادہ ادائگی ہوئی تھی مگر کام کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اسی سڑک کا دوبارہ ٹینڈر 8.4.2015 کو ہوا اور اب کے بار کا اس کی لاگت 1108.420 ملین تھی، یعنی اس وقت جو کام 27 کروڑ میں ہونا تھا اب وہ کام 1 ارب سے زیادہ رقم پر ہورہا ہے جس کی وجہ سے سب ڈویژن مستوج دس سال پیچھے چلا گیا۔ فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے سرکاری خزانے کو 2 ارب سے زیادہ کا رقم کا نقصان اٹھانا پڑا اور اب بھی کام نہایت سست رفتاری سے جاری ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر محکمہ مواصلات بروقت یہ کام کرتا تو نہ صر ف سرکاری خزانے کو 2 ارب روپے کا نقصان ہوتا بلکہ عوام کو بھی بروقت سہولت میسر ہوتی۔ان کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل اور صوبائی حکومت کے نمائندہ کو حکم دیا کہ وہ چودہ دن کے اندر تمام ریکارڈ اور اس سلسلے میں اپنا مکمل رپورٹ عدالت میں پیش کرے کہ ٹینڈر ہونے اور پیسے خرچ ہونے کے باؤجود ان سڑکوں پر کیوں کام نہیں ہوا۔
دریں اثناء ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد اللہ تریچوی نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ بد قسمتی سے بعض ادارے اپنے فرض منصبی میں مجرمانہ حد تک غفلت کررہے ہیں جن میں محکمہ Communication &Works سر فہرست ہے۔ اس محکمہ کے کاغذوں میں پرواک اور تورکھو روڈ کو تو بلیک ٹا پ ظاہر کیا تھا مگر کام کچھ بھی نہیں ہوا اور اس کی وجہ سے محکمے کے چھ افسران اور تین ٹھیکداروں نے جیل کی ہوا بھی کھائی۔ انہوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت صوبے میں تبدیلی کا دعویٰ کررہی ہے مگر ان محکموں میں اتنے بڑے پیمانے پر غبن کے باؤجود بھی کسی افسر کے خلاف تادیبی کاروائی نہیں ہوئی اور الٹا ان کو ترقی دی گئی۔ساجداللہ ایڈوکیٹ نے متنبہ کیا کہ چترال کے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ان بد عنوانیوں کے خلاف بھر پور انداز میں نہ صرف آواز اٹھائیں گا بلکہ انصاف کے حصول کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ 

Print Friendly, PDF & Email