ورڈپ دروش کے مکینوں کا پانی اور بجلی کے لیے احتجاج

دروش(گل حماد فاروقی) تحصیل دروش کے مضافات میں گاؤں ورڈپ کے لوگوں نے خواتین، شیر خوار بچوں اوربوڑھوں سمیت اوسیاک پل پر احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس جدید دور میں بھی لوگ بجلی اور پینے کی صاف پینے جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں گولین کے مقام پر 108میگا واٹ کا پن بجلی گھر مکمل ہوچکا ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی چترال سے باہر اضلاع میں بھی فراہم کی جاتی ہے مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق پر گاؤں ورڈپ کے سینکڑوں مکین اس بجلی سے ابھی تک محروم ہیں۔ اس کے علاوہ اس گاؤں میں پینے کے صاف پانی ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے اور لوگ دریا کا گندا پانی پینے پرمجبور ہیں جس سے وہ گردوں اور دیگر موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دروش کے سماجی کارکن حاجی انذر گل نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ گاؤں ورڈپ میں گوجر، پٹھان، چترالی اور محتلف قوموں کے لوگ رہتے ہیں مگر ان کو ابھی تک بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔مظاہرین میں ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اندھیروں کی وجہ سے ان کے بچے رات کو پڑھائی نہیں کرسکتے اور گرمیوں میں نہ صرف گرمی سے ہم پریشان ہیں بلکہ اکثر ہمارے بچوں کو بچھو بھی ڈستے ہیں کیونکہ اس علاقے میں کالے بچھو بہت زیادہ ہیں۔  ایک دوسری خاتون نے کہا کہ یہاں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے اور دریائے چترال سے گندا پانی مٹکوں میں سروں پر پہاڑی علاقے میں آباد اپنے گھروں کو چڑھاتے ہیں جس سے ان کے گردے خراب ہورہے ہیں اور بچے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
مظاہرین کے ساتھ تحصیل دروش کے محتلف سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے یکجہتی کے طور پر شرکت کی۔ سماجی کارکن اکمل بھٹو کا کہنا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رعایا کو بجلی، سڑک، پانی ، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرے مگر اس جدید دور میں بھی ورڈپ کے لوگ بجلی سے محروم ہیں۔
یونین کونسل ناظم عمران الملک نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ واحد یونین کونسل ہے جہاں ابھی تک بجلی اور پانی نہیں ہے او ر اس جدید دور میں بھی یہاں کے لوگ اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ارشاد مکرر کا کہنا ہے کہ منتحب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔
اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر محمد امجد خان سے فون پر رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ ابھی تک یہ علاقہ بجلی سے محروم کیوں رہا ان کا کہنا تھا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال ہمیں تحریری طور پر لکھے گا تو ہماری ٹیم جاکر اس کا تحمینہ لگائے گی   اس کے بعد ڈی سی چترال صوبائی یا مرکزی حکومت کی فنڈ سے پیسکو کو مطلوبہ رقم ادا کرے گا تو ہمار ٹیم اس علاقے میں بجلی کے کھنبے اور ٹرانسفارمر لگائیں گے۔
مظاہرین کے کیمپ کا دروش کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالولی خان نے بھی دورہ کرکے ان کے ساتھ مذاکرات کی اور ان سے دس دن کی مہلت مانگی۔ مظاہرین نے اس شرط پر اپنا احتجاج ختم کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر ان کو دس دن میں بھی بجلی نہیں ملی تو پھر وہ بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔

Print Friendly, PDF & Email