میری سیاست میرا منشور،عبدالولی خان ایڈوکیٹ کا چترال کے عوام کے نام پیغام

میرا تعلق بنیادی طور پر ایک غریب گھرانے سے ہے۔ پوری زندگی وکالت کے شعبے سے منسلک رہ کر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے  اتنا کما چکا ہوں کہ میں اور میرے بچے سکون کی زندگی گزار سکے  مگر میں اپنے آس پاس غربت، ناانصافی بے روز گاری اور عوام کے حقوق غصب کرنے جیسے حالات دیکھ کر خاموشی سے برداشت نہیں کرسکتا تھا اور ان چیزوں کا مقابلہ اقتدار کے بغیر ناممکن تھا اس لیے میں نے میدان سیاست میں بے خطر کودنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں سب سے پہلے مجھ پر پارٹیاں بدلنے کا جو الزام ہے اسکا جواب دیتا چلوں ۔ میرے سیاسی سفر کا آغاز جماعت اسلامی سے ہوا تھا۔ میں نے جماعت سے 2000ءمیں اپنی راہیں اصولی اختلاف کی بنیاد پر جدا کی۔ یہ اختلافات ہوتے رہتے ہیں گھر کے اندر بھی اختلافات ہوتے رہتے ہیں مگر میرے جماعت اسلامی کے اس وقت کے دوست آج بھی میرے لیے قابل احترام ہیں اور ان کی بھی اکثریت جماعت اسلامی کے اندر مخصوص لوگوں کی اجارہ داری کے خلاف ہیں ۔ میرا بھی جماعت سے جدا ہونے کی بنیادی وجہ دستور جماعت اسلامی کے خلاف مخصوص طبقے کی اجارہ داری تھی ۔ اللہ کے فضل کرم سے جب میں جماعت اسلامی چھوڑ رہا تھا تو مجھ پہ جماعت اسلامی کا کوئی قرض نہیں تھا اس لیے میرا ضمیر آج بھی مطمئن ہے۔ اس کے بعد میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا ساتھ دیا  وہ اس لیے کہ وہ وزیر داخلہ تھے اور چترال کے لیے ماضی میں ان کی خدمات تھیں ۔ میں نے اسکا ساتھ دیکر چترالی قوم کی مزید اس سے خدمت کروانے کی کوشش کی اور کیا بھی۔ ان میں قابل قدر چترال سکاؤٹس کے جوانوں کا جو تبادلہ دوسرے یونٹوں میں ہوا تھا وہ حکم وفاقی وزیر داخلہ نے میرے کہنے پر بہ یک جنبش قلم واپس لے لی جو ریکارڈ پہ موجود ہے۔ اس کے بعد آفتاب شیرپاؤ کا ملکی سیاست میں قابل قدر رول نہ دیکھ کر عمران خان کے نعروں کو دیکھتے ہوئے  ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی ہم سیاست عوام کی خدمت کے لیے کرنا چاہتے تھے۔ اسی صوبائی حکومت نے ہماری ایک نہیں مانی، وزیر اعلی کی طرف سے بارہا وعدہ خلافی کے بعد مزید ان سے کچھ توقع نہیں رہی تو ان سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔اب میں نے دیکھا ہماری پسماندگی کی بنیادی وجہ وفاق سے اختلاف ہے ہم ان لوگوں کو منتخب نہیں کرتے جن کی وفاق میں حکومت ہوتی ہےاس لیے وفاق ہمارے مسائل کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتی ۔ دوسری طرف گزشتہ وفاقی حکومت نے لواری ٹنل ، گولین گول پاور پراجیکٹ سے سیلاب اور زلزلہ زدگان تک چترالی عوام کی سہی خدمت کی،اس لیے میں نے مسلم لیگ (ن )کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں کوئی بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا البتہ تمام چترالی بہن بھائیوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ مجھے نمائندہ منتخب کرکے آپ کو کبھی بھی شرمندگی نہیں ہوگی بلکہ آپ مطمئن ہونگے کہ ہم نے ایک اچھا نمائندہ منتخب کیا۔

دوسری بات دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ مجھ میں آپ کے حقوق کے لیے لڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ میں کسی بھی فلور پہ آپ کے لیے آواز اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہوں اور یہی وعدہ آپ سے کرتا ہوں کہ مجھ میں آپ کے بنیادی حقوق کا ادراک ہے اور آپ کے حقوق کو کبھی بھی ضائع ہونے نہیں دونگا۔ (ان شاء اللہ)

آپ سے بھی گزارش ہے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکے ایک مرتبہ دیکھ لے میرے مخالف امیدواروں کا مجھ سے موازنہ کرے ۔ اگر کوئی قابلیت ، اہلیت اور آپ کے حقوق کی جنگ کے لیےمجھ سے بہتر نظر آئے تو بے شک دل کھول کے اسکا ساتھ دے۔ اگر آپ غیر جانبدار تجزیے کے کے بعد سمجھتے ہیں کہ میں آپکی نمائندگی کا اہل ہوں تو آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگایہ آپ کا دینی اور اخلاقی فرض ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email