ووٹ بیجنے کا الزام، بی بی فوزیہ کی چترالی عوام کو وضاحت

محترم خواتین و حضرات اسلام علیکم !

میں کافی عرصے  بعد آپ سب سے مخاطب ہو رہی ہوں۔میں سب سے پہلے آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں  کہ گزشتہ پانچ سالوں میں آپ سب نےمجھے سپورٹ کیا،مجھے عزت دی۔میں نے بھی بھر پور کوشش کی کہ اپنی ذمہ داری سے انصاف کرسکوں۔ آپ سب نے مل کے مجھ ایک ایسا ماحول دیاجس کی وجہ سے مجھے کام کرنے میں آسانی ہوئی ۔ بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی لیکن کبھی بھی کوئی بری بات سننے کو نہیں ملی۔ میں 2010ءمیں پاکستان تحریک انصاف کی ممبر بنی پھر 2013ءکے الیکشن میں مجھے پارٹی کی طرف سے سیٹ مل گئ ۔اس عرصے میں میں نے 16جگہوں پہ سکولز بنوائے، چترال یونیورسٹی کا قیام میرا خواب تھاجو مکمل ہوگیا۔ایون کے مقام پہ گرلز ڈگری کالج کا قیام ، ریسکیو 1122، دورش اور بونی ہسپتال کی اپگریڈیشن اور ان ایمبولنس کی فراہمی ، 11 آرسی سی پل،چترال ٹاؤن اور دورش میں لنک روڈذ کی بلیک ٹاپنگ، جنجریت اور مولکوہ میں روڈز کی extension ، سب تحصیل دورش اور موڑکھو کو مکمل تحصیل کی حثیت دی۔ تین ووکشینل سنٹرز کا قیام، دورش ، نشکو،شاگرام،اورغوچ ،انگور اور یوسی 2 میں واٹر سپلائی اسکیمز،17 ہینڈ پمز، اور اس کے علاوہ اپنے صوابدیدی فنڈ سے پورے چترال میں کام کیےجس میں سیلائی سنٹرز، مساجد کی لیے فنڈز، لنک روڈذ، پائپ لائن کی فراہمی ، مختلف جگہوں پہ قبرستان کے لیے ذمین کی خریداری، پروٹیکشن والز، ٹرانسفرمرز کی فراہمی یقینی بنائی۔

اپر چترال کو الگ ضلع بنانے کے لیے بھی کوشش کی، اور کیبنٹ کے ایجنڈے سے منظوری دلوائی مگر بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی لگ گئ۔ اس محنت کے بعد پارٹی میں میری پوزیشن بہت مضبوط ہوگئ تھی لیکن بدقسمتی سینٹ کے الیکشن میں مجھ پہ الزام لگایا کہ میں نے ووٹ بیجھا ہےجو کہ سراسر جھوٹ تھا۔میں نے انہی لوگوں کو ووٹ دیاجووزیراعلیٰ  نے کہا تھا۔لیکن بدقسمتی مجھ پہ یہ الزام لگایا گیا۔ 19 اپریل کو پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس ملا۔میں نے 28 کو اپنا جواب جمع کی جبکہ 15 دن کے اندر جواب دینا تھا۔اس کے ایک کمیٹی بنی جس کے ذمہ داری نعیم الحق کے پاس تھی۔انھوں نے ٹائم ضائع کیااور کمیٹی تحلیل ہوگئی ۔دوسری کمیٹی اسد قیصر  کی نگرانی میں بنی۔انھوں نے میٹنگ کال کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس دوران میں نے لیڈر شپ کو ملنے کی کوشش بھی کی۔ CM صاحب نے CM سیکرٹریٹ جانے پہ پابندی لگائی ۔کیونکہ خان کے سامنے جھوٹ بولا تھا اس لیے ہمیں فیس نہیں کرسکتا تھا۔ ان دنوں ان کے ترجمان مجھے کال کی اور کہا کہ بی بی آپ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن ایک غلط خبر ہےکہ آپ پی پی پی میں جا رہی ہیں ۔اسپیکر صاحب کے پاس گئ کہ مجھے کوئی فیور نہیں چاہیے بس کمیٹی کی میٹنگ بلا لے۔انھوں نے بھی کہا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے البتہ پی ٹی آئ چترال کے کچھ ممبرز آئے تھےاور انھوں نے کہا ہے کہ کلیئرنس نہ دے کیونکہ فوزیہ پی پی پی میں جا رہی ہے۔میں نے بہت انتظار کیاکہ کوئی میٹنگ کال آئے گی لیکن میرا ٹائم ضائع ہوگیا۔22 مئی کو میں نے چیئرمین صاحب کو لیگل نوٹس بیجھا اور فیس بک پہ نہیں دی۔آج 15 دن بعد میں نے ہتک عزت کا کیس دائر کر دی۔میرا مقصد صرف اپنی پوزیشن کو کلیر کرنا ہے اور یہ میرا قانونی حق ہے۔اگر میں غلط ہوتی تو کورٹ جانے کی ہمت نہ کرتی۔ انسان کی عزت اس کے لئے ضروری ہےاور میں اپنی عزت پہ compromise نہیں کروں گی ۔میں چاہتی ہوںکہ میں اس الزام کا جواب دوں۔اگر میں غلط ہوئی تو میں آپ سب سے معافی مانگو گی۔ قانون سب کے لیے ایک ہے اور عزت بھی سب کی برابر ہوتی ہے۔لہذا کسی کو react کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی ایک انسان سچا اور دوسرے کو جھوٹا دیکھانے کی کوشش کرنی چاہیے  اور چونکہ میں نے ووٹ دی اس لیے مجھے پتہ ہے کہ کیا کرنا چاہئیے  مجھے امید ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ انصاف پر ہوگا۔جہاں تک کسی پارٹی میں جانے کی بات ہے، تو اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

آخر میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا، میرا حوصلہ بڑھایا۔انشاء اللہ میں اس کیس میں کامیاب ہوجاؤں گی۔     خیراندیش

بی بی فوزیہ سابق ایم پی اے چترال حال پشاور

Print Friendly, PDF & Email