چترال میں لوڈ شیڈینگ کا عذاب،ماہ رمضان میں تریچ میر پہاڑی کی قدرتی برف نعمت خداوندی سے کم نہیں

چترال(زیل نمائندہ) ماہ رمضان کے بابرکت مہینے میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح چترال میں بھی روزانہ پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فریج اور ریفریجیریٹر وغیرہ کام نہیں کرتا اور اس میں برف نہیں بنتا جس سے روزہ دار شام کے وقت شدید گرمی میں افطاری کرسکیں  تاہم سطح سمند ر سے 25000 فٹ کی بلندی پر واقع تریچ میر کی پہاڑی پر قدرتی برف اس گرمی میں نعمت خداوندی سے کم نہیں۔
چترال ملک کا وہ ضلع ہے جہاں استعمال سے بھی زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ دو میگاواٹ کی پن بجلی گھر ایک غیر سرکاری ادارے سرحد رورل سپورٹ پروگرام کا بنا ہوا ہے، ایک میگا واٹ کا بجلی گھر سینگور میں بنا ہوا ہے اور ابھی حال ہی میں گولین کے مقام پر 108 میگا واٹ پن بجلی گھر کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا جس میں فیز ون سے 36  میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر جاوید آفریدی نے ہمارے نمائندے کو فون پر بتایا کہ ان کا بجلی گھر چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی بند نہیں ہوتا اور انہوں نے پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) کے عملہ کو بتایا بھی ہے کہ ان کی بجلی گھر میں استعمال سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے لہذا پیسکو کو چاہئے کہ وہ اس پر 8 میگا واٹ کا مزید بوجھ ڈالے مگر وہ ابھی تک آٹھ میگا واٹ کی اس اضافی بجلی کو استعمال میں نہیں لاتے اور یوں وہ ضائع ہوتا ہے۔مگر اتنی وافر مقدار میں بجلی پیدا ہونے کے باوجود بھی چترال میں روزانہ پانچ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ اس دوران بجلی گھر چالو ہوتا ہے اور یہ 36میگاواٹ کی بجلی بغیر استعمال کے ضائع ہوتا ہے جس سے ایک طرف واپڈا کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے دوران بجلی ضائع ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام کے اس بابرکت مہینے میں شدید گرمی میں نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم قدرتی طور پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی ہوئی برف کسی بھی طرح نعمت سے کم نہیں ۔ یہاں کے لوگ صبح سویرے جاکر تریچ میر کے پہاڑ سے یہ قدرتی برف گاڑیوں میں لاتے ہیں اور یہاں لاکر اسے دوپہر کے وقت فروخت کرتے ہیں۔
محمد علی برف کا کاروبار کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہاں 36 میگا واٹ کا بجلی گھر بھی بنا ہوا ہے مگر پھر بھی یہاں طویل دورانئے کا لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فریج میں برف نہیں بنتی اور لوگ یہ برف خریدتے ہیں۔
ارشاد علی ایک خریدار ہے اس کا کہنا ہے کہ جب چترال میں وزیر اعظم نے بجلی گھر کے افتتاح کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ اب چترال میں اتنی بجلی پیدا ہوتی ہے کہ لاوڈ شیڈنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی تو ہم بہت خوش بھی تھے اور اس اعلان کے بعد پر امید بھی تھے کہ چلو یہ رمضان کا مہینہ  اچھا گزرے گا مگر اتنی بجلی پیدا ہونے کے باوجود بھی گریڈ اسٹیشن والے جان بوجھ کر بجلی بند کرتے ہیں اور ہمارے گھروں میں فریج اور ریفریجریٹر خاموش ہیں جس میں نہ برف بنتی ہے اور نہ ٹھنڈا پانی اس لیے  ہم روزانہ دوپہر کے بعد چیو پل پر کھڑے ہوکر تریچ میر سے آنے والے برف کی گاڑیوں کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان سے بر ف خرید کر افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی یا شربت پی سکے۔ان کا کہنا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا جب بجلی استعمال سے بھی زیادہ پیدا ہوتی ہے تو پھر یو لوڈ شیڈنگ کون اور کیوں کراتا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں ہے یہ ویسے سیاستدان اور حکمران عوام کو بے

وقوف بناتے ہیں اور جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔چترال کے عوام کا کہنا ہے کہ اگر لواری ٹاپ اور تریچ میر پہاڑ کی قدرتی برف نہیں ہوتی تو ان کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ عوام چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ واپڈا اور پیسکو کے حلاف جوڈیشل انکوایری مقرر کی جائے کہ وہ کس کے کہنے پر اتنی زیادہ بجلی پیدا ہونے کے باوجود بھی بلا ضرورت لوڈ شیڈنگ کراتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email