ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بونی میں کھلی کچہری

بونی: ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سودھر اور ضلعی انتظامیہ نے 75کلومیٹر دور بالائی چترال تحصیل مستوج کے صدر مقام بونی کے جامع مسجد میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا۔ جس میں تمام محکموں کے سربراہان اور نمائندوں نے بھی شرکت کی تاکہ عوام کے شکایات سنے اور ان کا ازالہ کی جاسکے۔
اس موقع پر ڈی سی چترال نے کہا کہ سرکاری ملازمین عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں لیتے ہیں اور سرکاری ملازم پبلک سرونٹ یعنی عوام کا ملازم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت، چیف سیکرٹری کے ہدایت کے مطابق چترال میں کھلی کچہری یعنی عوامی عدالت اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ عوام کی مشکلات اور مسائل کی داد رسی ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ چترال بہت بڑا ضلع ہے جہاں کے طول و عرض سے لوگ میرے دفتر آتے یا کسی دوسرے محکمے کے دفتر جاتے ہیں مگر پتہ چلا کہ محکمے کا سربراہ موجود نہیں ہے تو عوام کو نہایت مایوسی ہوتی ہے۔اسلئے ہم خود چل کر آپ کے پاس آئے تاکہ ہم خود آپ کے مسائل سنیں اور ان کو حل کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھائے۔
کھلی کچہری میں لوگوں نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو، پبلک ہیلتھ انجنیرنگ، ایریگیشن، میونسپل انتظامیہ، پولیس، سرحد رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور ضلع بھر میں تمام محکموں کے خلاف شکایات کے دفتر کھول دئے۔
عوام نے شکایت کیا کہ تورکہو روڈ پر ایک ارب سے زیادہ کا رقم منظور ہوچکا ہے مگر ڈیڑھ سال میں کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے افسران اپنے کمیشن کے خاطر خاموش ہیں اور ٹھیکیدار موقع پر آتا نہیں ہے۔
یہ بھی شکایت آئی کہ ریشن بجلی گھر دو سال پہلے سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا تھا بونی میں ڈیزل جنریٹر چلایا جاتا ہے جس کا 25 روپے فی یونٹ ادائیگی عوام کرتی ہے مگر سرکاری محکموں کے جتنے بھی دفاتر ہیں وہ ڈیزل جنریٹر کی بجلی تو استعمال کرتے ہیں مگر بل نہیں دیتے۔ جس کا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے ہدایت کی کہ آئندہ جو محکمہ بل ادا نہ کرے ان کی بجلی کا لائن کاٹ دی جائے۔
محکمہ صحت کے خلاف شکایت آئی کہ سیلاب کے موقع پر امداد کے طور پر دوائی آئی تھی مگر وہ کسی کو بھی نہیں ملی۔ بونی ہسپتال میں خاتون ڈاکٹر نہیں ہے۔
عوام نے شکایت کی کہ محکمہ پبلک ہیلتھ کی جانب سے چترال میں کروڑوں روپے کاغذات میں تو خرچ ہوئے مگر لوگ پینے کی پانی سے محروم ہیں جب انکے دفتر جاتے ہیں تو کوئی افسر نہیں ملتا۔سلطان جلال، نصر من ا اللہ، گل حیات، شجاع و دیگر نے شکایت کی کہ رائین اور دیگر دیہات میں ناقص پائپ لگایا گیا ہے جس میں پانی نہیں آتا اور جگہ جگہ وقت سے پہلے ٹوٹ چکا ہے۔  ڈپٹی کمشنر نے ہدایت کی کہ پبلک ہیلتھ ایس ڈی او ہفتے میں چار دن بونی دفتر میں بیٹھ کر لوگوں کی شکایت سنے گا اور ان کو حل بھی کرے گا۔ جبکہ ناقص پائپ لائن بچھانے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا۔
یوتھ کونسلر نے شکایت کی کہ چترال کے ہر گاؤں میں منشیات کھلے عام دستیاب ہیں اور نوجوان نسل نشے کے لعنت میں دھنس چکا ہے یہ منشیات کہاں سے اور کیسے پہنچتا ہے جبکہ جگہ جگہ پولیس کے ناکے لگے ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر علی اکبر نے یقین دہائی کرائی کہ منشیات فروشوں کے خلاف سختی سے کاروائی کی جائے گی۔
بعد میں ڈپٹی کمشنر نے سنٹرل جماعت خانہ میں بھی کھلی کچہری لگائی جہاں اسماعیلی کمیونٹی کے لوگوں نے ان کے سامنے اپنے شکایات اور تجاویز پیش کئے۔ محکمہ خوراک کے خلاف شکایت آئی کہ عوام کو ناقص اور پرانا گندم فراہم کیا جاتا ہے جس کی بار بار شکایت کی گئی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ آبپاشی کی کوئی نہر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی کرڑوں روپے غبن ہوگئے مگر لوگ پینے اور زراعت کے پانی سے محروم ہیں۔ تحصیل میونسپل کے بارے میں شکایت کی گئی کہ ان کا عملہ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر صفائی نہیں کرتی۔ لوگوں نے یہ بھی شکایت کی کہ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے جتنے بھی بجلی گھر تعمیر کئے جاتے ہیں وہ ناقص ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں زیادہ تر بجلی گھر ناکارہ ہوچکے ہیں اور عوام بجلی سے محروم ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی کہ وہ چترال کے ہر مسجد اور جماعت خانہ میں کھلی کچہری لگائے گا تاکہ یہاں سب عوام آسکے اوراس میں شرکت کرسکے۔

Print Friendly, PDF & Email