موژگول کا آرسی سی پل تین سال کاعرصہ گزرنے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوا ہے

موژگول(زیل نمائندہ)جولائی 2015 ءمیں چترال میں آنے والے سیلابی ریلوں کے نتیجے میں ایک طرف 33قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا تو دوسری طرف پورے کے پورے گاؤں منوں مٹی تلے دب گئے تھے۔ان گاؤں میں موژگول بھی تھا جس کا آدھا حصہ سیلاب کی بے رحم ریلوں کی نذر ہوا تھا۔ ہنستے بستے گھر چند ہی لمحوں میں ملیامیٹ ہوگئے تھے۔ آب پاشی ،آب نوشی اور آمدورفت کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اس علاقے کو دوسرے علاقوں سے ملانے والا واحد پل بھی سلاب برد ہوا تھا۔ چند ماہ بعد متاثرہ پل کو آمدورفت کے لیے دوبارہ تعمیر کیا گیامگر اس کی حالت نہایت خراب ہے۔ یہ پہلے ٹرک ایبل پل تھا جو بعد میں جیپ ایبل بنایا گیا۔علاقے کے عوام نے بار بار آواز اٹھایا تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس وقت اس دریا پر آر سی سی یعنی سیمنٹ کا پُل بنانے کے لیے چھ کروڑ روپے منظور ہوئے اور سابق صوبائی وزیر محمود خان جو اب خیبر پختون خوا کے وزیر اعلٰی ہیں مئی 2017ءمیں اس کا افتتاح کیا تھا مگر مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس پل کی تعمیر میں صرف دو مزدور کام کرتے ہیں۔ریٹائر صوبیدار عرفان ولی نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس پُل کے ساتھ ایک حفاظتی دیوار بھی بنایا گیا ہے جس پر ساٹھ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن کام ادھوار ہے۔پل پر کام بھی نہایت سست رفتاری سے جاری ہے اور لگتاہے کہ یہ اگلے سال بھی نہیں بن سکے گا۔عبد الولی خان کسان کونسلر نے بتایا کہ 2015ءکے سیلاب میں ہمارا یہ پل سیلاب میں بہہ گیا تھا جو لکڑی کا پل بنایا گیا وہ پل صراط سے کم نہیں ہے ہم گاڑیوں سے سامان اتار کر اس سے گزارتے ہیں اور سامان کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

پورے کے پورے گاؤں منوں مٹی تلے دب گئے تھے۔ان گاؤں میں موژگول بھی تھا جس کا آدھا حصہ سیلاب کی بے رحم ریلوں کی نذر ہوا تھا۔ ہنستے بستے گھر چند ہی لمحوں میں ملیامیٹ ہوگئے تھے۔ آب پاشی ،آب نوشی اور آمدورفت کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اس علاقے کو دوسرے علاقوں سے ملانے والا واحد پل بھی سلاب برد ہوا تھا۔ چند ماہ بعد متاثرہ پل کو آمدورفت کے لیے دوبارہ تعمیر کیا گیامگر اس کی حالت نہایت خراب ہے۔ یہ پہلے ٹرک ایبل پل تھا جو بعد میں جیپ ایبل بنایا گیا۔علاقے کے عوام نے بار بار آواز اٹھایا تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس وقت اس دریا پر آر سی سی یعنی سیمنٹ کا پُل بنانے کے لیے چھ کروڑ روپے منظور ہوئے اور سابق صوبائی وزیر محمود خان جو اب خیبر پختون خوا کے وزیر اعلٰی ہیں مئی 2017ءمیں اس کا افتتاح کیا تھا مگر مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس پل کی تعمیر میں صرف دو مزدور کام کرتے ہیں۔ریٹائر صوبیدار عرفان ولی نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس پُل کے ساتھ ایک حفاظتی دیوار بھی بنایا گیا ہے جس پر ساٹھ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن کام ادھوار ہے۔پل پر کام بھی نہایت سست رفتاری سے جاری ہے اور لگتاہے کہ یہ اگلے سال بھی نہیں بن سکے گا۔عبد الولی خان کسان کونسلر نے بتایا کہ 2015ءکے سیلاب میں ہمارا یہ پل سیلاب میں بہہ گیا تھا جو لکڑی کا پل بنایا گیا وہ پل صراط سے کم نہیں ہے ہم گاڑیوں سے سامان اتار کر اس سے گزارتے ہیں اور سامان کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

 مقامی لوگوں نے وزیر اعلٰی محمود خان سے مطالبہ کیا کہ انہوں نے خود اس پل کا افتتاح کیا تھا تو محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے حکام کو ہدایت کرے کہ اس پر کام کی رفتار تیز کرے۔ مقامی لوگ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف کی نفاذ اور بدعنوانی کے خاتمے کے دعویدار حکومت اس سلسلے میں تحقیقات کرے کہ اس حفاظتی دیوار پر کتنا رقم خرچ ہوا اور اگر مقررہ مقدار سے زیادہ رقم خرچ ہوئی ہو تو متعلقہ افسران کے خلاف کاروائی کی جائے نیز پل کی تعمیر پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email