چترال کا سیاسی دنگل،کانٹے کا مقابلہ متوقع

چترال(زیل ڈیسک)عام انتخابات2018ء کے سلسلے میں NA-1اور PK-1چترال میں امیدواروں کے مابین مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔ یہ حلقہ پہلے NA-32تھا سیاسی اعتبار سے دلچسپ رہا ہے۔ ضلع سے باہر کئی قدآور سیاسی اورعسکری قیادت اس دوراُفتادہ  علاقے کی طرف توجہ دی ہیں اور اب تک چترال کے عوام خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرض نبھا رہے ہیں۔قومی اور صوبائی نشستوں میں مجموعی طور پر 25امیدوارقسمت آزمائی کررہے ہیں۔ چترال کی دونشستوں میں دل چسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوا جب اے پی ایم ایل کے ڈاکٹر محمد امجدچوھدری نے دبنگ انداز میں انٹری دی۔ توقع کی جارہی تھی کہ اس حلقے میں متحدہ مجلس عمل،پاکستان پیپلزپارٹی،پاکستان تحریک انصاف اور پی ایم ایل (ن) کے مابین کانٹےکا مقابلہ ہوگا۔269577رجسٹرڈ ووٹرز294پولینگ اسٹیشنز پرحق رائے دہی کا بھرپور استعمال کرنے کے لیے بے تاب ہیں ۔چترال میں کل 753پولینگ بوتھ بنائے گئے ہیں جہاں 151218مردجبکہ 118357خواتین ووٹرز ووٹ ڈالیں گے۔این اے ون چترال میں گیارہ امیدواروں کے مابین مقابلہ ہے ۔زمینی حقائق کے پیش نظر اس حلقے میں چاربڑی سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کے مابین سخت مقابلے کی توقع ہے۔ سابق ایم این اے اور متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالاکبر چترالی،سابق ایم این اے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہزادہ افتخارالدین،پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر سلیم خان اور پاکستان تحریک انصاف کے عبداللطیف کے مابین زبردست مقابلہ ہوگا۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے ڈاکٹر محمدامجد،عوامی نیشنل پارٹی کے الحاج عیدالحسین اور آزادامیدوار شہزادہ تیمورخسرو اگرچہ جیت کی دوڑ میں نہیں ہیں لیکن جیتنے والے امیدواروں کے ووٹ بنک کو متاثرکرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ماضی میں قومی اسمبلی کی اس واحد نشست سے پی پی پی،مسلم لیگ ،آئی جے آئی اور اے پی ایم ایل کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اب کامیابی کا تاج کس کے سر سجے گا اس کا فیصلہ25جولائی کی رات ہوگا۔

دوسری طرف چترال میں صوبائی اسمبلی کی واحد نشست PK-1میں بھی سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد چترال کی دوصوبائی نشست کم ہوکر ایک نشست رہ گئی ہے اور پندرہ امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگا۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی ،ایم ایم اے،پی پی پی ،پی ایم ایل (ن)،اے این پی اور اے پی ایم ایل کے امیدواروں کے مابین سخت مقابلہ ہوگا۔ ماضی میں اس صوبائی نشست پر پی پی پی کی گرفت اب تک مضبوط رہی ہے تاہم جماعت اسلامی ،مسلم لیگ اور ایم ایم اے کے امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی ہیں۔ اس حلقے میں بھی کانٹے کا مقابلہ ہوگا اور کارکن اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرنے کے لیے مقررہ وقت تک تگ و دَو کریں گے۔

Print Friendly, PDF & Email