دروش کے دور افتادہ گاؤں گوس اور ڈوم شغور آج بھی پرائمری سکول سے محروم ۔ اہلیان ِ علاقہ سراپا احتجاج

دروش( نامہ نگار) موجودہ صوبائی حکومت نے بہتر تعلیمی معیار کو اپنے اولین ترجیح میں رکھا ہے۔جس کے تحت این ٹی ایس کو متعارف کرا کے شفافیت کو یقینی بنایا جو کہ بجا طور پر قابل تحسین اقدام ہے۔لیکن ان کے دعوے داری ابھی تک اپنے منشور کو عملی جامعہ پہنانے کے حوالے سے تشنائے حل طلب ہے۔تحصیل دروش کے اندر دور دراز مضافاتی علاقوں کے نو نہال کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر حصول تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔اس کی واضح مثال دور آفتادہ گاؤں گوس اور ڈوم شغور ہے۔جہاں ابھی تک پرائمری سکول سرے سے نہیں ہیں۔ اس حوالے سے متعددمرتبہ حکومتی ذمہ داروں کو درخواستیں دی گئی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نذد کر دئیے گئے۔جس کی وجہ سے یہ بچے پر خطر راستوں سے ہوتے ہوئے حصول تعلیم کیلئے شہرکا رخ کرنے پر مجبور ہیں جو کہ حکومت اور منتخب نمائندگاں کیلئے لمحہ فکریہ ہے گذشتہ اے ڈی پی میں سلیم خان دروش میں چار پرائمری سکول رکھے تھے جو کہ اپنی آخری مراحل میں داخل ہیں لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومت اور چترال کے ممبران اسمبلی ا بھی تک مذکورہ علاقوں کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں۔یہ باتین یفت قومی مومنٹ دروش کے صدر اکمل بھٹو نے اپنے ایک اخباری بیان میں کیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایم پی اے سلیم خان دروش میں یکسان طور پر ترقیاتی کام کرنے کے بجائے مخصوص علاقوں تک اپنے فنڈزکو محدود رکھا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔گذشتہ سیلاب میں ڈوم شغور رابطہ سڑک مکمل طور پر بہہ کر اہلیاں علاقہ کے لیے سفری افریت کا باعث بنا رہا ۔حفاظتی پشتوں کے مد میں درخواست دینے پر بھی سلیم خان نے اس کیلئے کوئی فنڈز نہیں رکھا۔علاوہ ازین زلزلے میں مکمل منہدم اوسیک اوچ مسجد کیلئے بھی درخواست دی گئی تاہم اس حوالے سے بھی طفل تسلی سے کام لیا گیا۔اخباری بیان کے ذریعے ہم سلیم خان اور تحریک انصاف حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ترقیاتی کاموں سے محروم پسماندہ علاقوں کی طرف توجہ دے ورنہ اہلیان علاقہ اپنے حقوق کیلئے سڑکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے