بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگے تو خبردار ہو جائیں؛ یہ تکلیف دہ بیماری ہے

آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں، وہ پٹھوں کی ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے۔

مسکولر ڈسٹرافی کو ایک خاموش قاتل سمجھا جاتا ہے، آپ کی عمر 2 سال سے 60 سال تک ہے، اور آپ بڑی اچھی زندگی جی رہے ہیں لیکن یہ قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہوا ہوتا ہے جو کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔

اس مسکولر ڈسٹرافی کو عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے، اسے ہمارے جینز میں چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند حصوں یا پورے جسم میں تباہی مچا دیتا ہے۔

اس بیماری کی 8 اقسام ہیں، مگر سب سے عام قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی ہے یہ ایک جنیٹک یعنی موروثی بیماری ہے جو سب سے چھوٹی عمر میں ہوتی ہے، یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے جو انھیں ماؤں سے منتقل ہوتی ہے۔

جیسے ہی لڑکے کی عمر 5 سال ہوتی ہے وہ ٹھیک ٹھاک بچہ اچانک پاؤں کی ایڑھی زمین سے اٹھا کر پنجوں پر چلنے لگتا ہے ،جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں اور والدین بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ یہ تم کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو، مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

چند ماہ بعد بچہ بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے لگتا ہے تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا اور پیچھے گر جاتا ہے، ٹانگیں کمزور ہوتی جاتی ہیں، مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے۔

 اسے گاور سائن کہتے ہیں لیکن تب تک بچے کی عمر 7 سے 8 سال ہو چکی ہوتی ہے یعنی 2 سے 3 سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا رہا تھا اور جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی ہے بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 10 سال کی عمر تک بازو کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہو جاتا ہے، ٹانگیں اور بازو مکمل یا 90 فیصد مفلوج ہو جاتے ہی اور بچہ پانی بھی خود سے نہیں پی سکتا، کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں جس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے 10 سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں لیکن پھر وھیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل نہیں سکتے۔

بچے کو اگر اس دوران بخار ہو جائے تو ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا حملہ بہت تیز کر دیتا ہے اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے ہیں اس لئے ان بچوں کو بخار میں ہر وقت لیٹنے نہ دیں، پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا چلائیں کیوںکہ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے پر ٹوٹنے شروع ہوگئے تو ان کو پھر روکا نہیں جا سکتا۔

دراصل اس بیماری میں ٹانگوں اور کمر کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے بچے کو ایڑھیاں اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اس بیماری کا پوری دنیا میں کوئی علاج نہیں، ہاں اسٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد اس کے علاج میں مددگار ہو لیکن اگر شروع ہی میں اس بیماری کا پتا چل جائے اور کوالٹی آف لائف بہتر کر دی جائے تو بچوں کی زندگی 30 سے 40 اور بہت کم کیسز میں 50 سال تک بھی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ مالش بالکل نہیں کرنی، کوئی بریس کوئی اسپیشل جوتا نہ پہنائیں، سرجری نہ کروائیں، بیکری کی تمام اشیاء سے پرہیز ضروری ہے، چاول، کولڈ ڈرنکس، مصنوعی جوسز نہ دیں اور بچوں کو موٹا بھی نہ ہونے دیں، کیوںکہ اس بیماری میں موٹاپے کا مطلب موت ہے ۔

اگر بچہ اسکول آسانی سے جا سکیں تو بھیجیں، پڑھائی اور امتحانوں کے دباؤ اور ڈپریشن سے دور رکھیں، بچے کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آپ کی زندگی اب وھیل چیئر کے ساتھ گزرنی ہے، پاور وھیل چیئر مل جائے تو آسانی ہو جائے گی۔

ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں، وائس اوور آرٹسٹ بن سکتے ہیں اور نیوز کاسٹر بھی بن سکتے ہیں۔

The post بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگے تو خبردار ہو جائیں؛ یہ تکلیف دہ بیماری ہے appeared first on .

Print Friendly, PDF & Email