کالاش تہوار چیلم جوشٹ اختتام پذیر،سیاحوں کی کثیر تعداد میں شرکت

بمبوریت(گل حماد فاروقی) جنت نظیر واد ی کالاش میں دنیا کے نہایت قدیم قبیلے کے لوگ رہتے ہیں جو اپنی مخصوص ثقافت اور طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ کالاش قبیلہ اپنے منفرد رسم و رواج کی وجہ سے دنیا بھر کی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کالاش قبیلے کے لوگ ہر سال دو بڑے اور دو چھوٹے جشن مناتے ہیں جو ان کی مذہبی رسومات پر مبنی ہوتی ہیں یہ تہوار ان کی مذہبی تہوار یں بھی ہیں۔
حسب سابق امسال بھی کالاش قبیلے کے لوگوں نے سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوشٹ جسے جوشی بھی کہتے ہیں نہایت جو ش و خروش سے منایا۔ اس دفعہ اس جشن کو منانے کے لیے  کالاش قبیلے کے لوگوں سے تعاون اور اس کی اشتہارات دینے کے لیے ٹورزم کارپوریشن خیبر پختون خوا نے مالی مدد کی تھی۔اس دفعہ چیلم جوشٹ کے تہوار کو دیکھنے کے لیے  اتنی بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے تھے کہ پورے وادی کے ہوٹلو ں میں رہنے کی جگہ نہیں ملی اور لوگ خیموں میں رہ کر جشن کو انجوائے کیا۔ اس موقع پر فرانس سے آئی ہوئی بابرہ نے کہاکہ وہ یہاں آکر بہت خوش ہوئیں کیونکہ یہ نہایت نرالی اور مخصوص ثقافت کے حامل لوگ ہیں اور یہ نہایت اچھے لوگ ہیں ہمیں چاہئے کہ ان کی اقدار اور مذہبی عقائد کی قدر کرے۔
وزیر زادہ ایک سماجی کارکن ہے جن کا تعلق کالاش قبیلے سے ہے ان کا کہنا ہے کہ کالاش  واحد اقلیت ہے جو کئی ہزار سالوں سے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان وادیوں میں آباد ہیں۔ چیلم جوشٹ تہوار میں کالاش کے مرد ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ عورتیں، مرد، لڑکے، لڑکیاں اور بچے بھی ٹولیوں کی شکل میں روایتی رقص پیش کرتے ہوئے مذہبی گیت گاتی ہیں جبکہ نوجوان لڑکے بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی کندھوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ بھی گول دائرے میں رقص کرتے ہیں۔ کیلاش لوگ صبح کے وقت مشرقی میدان میں رقص کرتی ہیں جبکہ دوپہر کے بعد ان کی خواتین ایک مخصوص راستے سے گزرتے ہوئے ہاتھوں میں پھول یا اخروٹ کی ٹہنیاں پکڑ کرے ان کو ہلا ہلا کر گزرتی ہیں اور اس جگہہ جمع ہوتے ہیں جہاں یہ مذہبی رسومات کے طور پر رقص پیش کرتی ہیں ان کو چرسو بھی کہا جاتا ہے۔سہ پہر کے بعد کالاش قبیلے کے مذہبی رہنماء قاضی کے حکم پر مرد حضرات سب الگ ہوکر ایک کھیت میں جمع ہوتے ہیں جبکہ ان کے بعض قاضی جو مذہبی رہنماء ہوتے ہیں وہ گندم کے فصل میں دودھ چڑھکاتے ہیں تاکہ اس میں برکت پیدا ہو۔یہ مرد ہاتھوں میں پتے اور اخروٹ کے ٹہنی پکڑ کے ان کو مسلسل ہلاتے ہیں اور مخصوص آواز میں گیت بھی گاتے ہیں ایک قاضی ان کی سربراہی کرتے ہوئے ان اس راستے کی نشادندہی کراتا ہے جہاں سے ان لوگوں نے گزرنا ہو۔ تاہم اس دوران کسی مسلمان یا باہر سے آیا ہوا کالاش بھی ان کے سامنے اس راستے پر کھڑ ا ہونے کی اجازت نہیں ہوتی جہاں سے انہوں نے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ دھیمے دھیمے چل کر اس میدان میں جمع ہوتے ہیں جہاں پہلے سے ان کی خواتین (لڑکیاں) ان کی انتظار کرتی ہیں اور وہ بھی جواب میں ہاتھوں میں پھول، پتے پکڑ کر ان کو مسلسل ہلاکر گیت گاتی ہیں جب یہ لوگ خواتین کے بالکل سامنے پہنچ جاتے ہیں تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتے ان پر نچھاور کرتے ہیں جو انتہائی محبت کا اظہار ہوتا ہے،جواب میں عورتیں بھی ان پر وہ پتے پھینکتے ہیں او ر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بانہوں ملاکر مشترکہ رقص پیش کرتے ہیں۔ چند لڑکیاں رنگین دھاگے سے بنی ہوئی پٹی ہاتھوں میں باندھ کر جسے دوسری لڑکی پکڑتی ہیں اور یوں ہاتھوں کی زنجیر کا لمبا قطار بن جاتا ہے جو اس میدان سے گول دائرے میں گھوم کر ناچتی ہیں جہاں دوسر ے لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈال کر ناچتی رہتی ہیں۔یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے اور شام کے بعد جن چلے اپنے چاہنے والیوں کو پکڑ کر دوسرے وادی میں بھاگتے ہیں جہاں وہ شادی کا اعلان کرتے ہیں۔ لاہور سے آئی ہوئی مس جمیلہ نے کہا کہ یہ نہایت خوبصورت لوگ ہیں مگر قدرے شرمیلے ہیں ان کی لباس اور سروں پر ٹوپیاں بہت اچھی لگتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس نے کالاش نہیں دیکھا اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ کراچی سے آئی ہوئی مس حنا ء کا کہنا ہے کہ زندگی میں کیلاش کا تہوار ایک مرتبہ ضرور دیکھنا چاہئے۔سکھ قبیلے سے تعلق رکھنے والے سردار ولن سنگھ جو لاہور سے اس تہوار کو دیکھنے کے لیے  آیا تھا اس کا کہنا ہے کہ یہاں آکر اسے بہت مزہ آیا۔ شانگلہ سے آیا ہوا عباد اللہ کا کہنا ہے کہ اگر کیلاش وادیوں کی سڑکوں کو بہتر بنائے تو مزید سیاح یہاں آئیں گے اور ان سیاحوں کی آمد سے ان غریب لوگوں کی بھی معاشی حالت بہتر ہوگی۔
جرمنی سے آیا ہو ا ایک سیاح اینگلو کا کہنا ہے کہ یہ بہت خوبصورت جگہہ ہے اور نہایت پرامن بھی، ان کا کہنا ہے کہ میں دنیا بھر کے سیاحوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ضرور یہاں آئے اور اس پر امن ناحول اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوجائے۔
کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے قانون دان نابیگ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے ہمارے نام پر فنڈ تو لیتا ہے مگر ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ ہمارا جو بنیادی رقص گاہ ہے اسے بھی ایک غیر سرکاری ادارے اے وی ڈی پی نے بنا یا ہے تو پھر سرکار کیا کرتی ہے۔اس نے کہا کہ ہم خود کو محفوظ کرتے ہیں اور اپنی ثقافت کو بچاتے ہیں مگر حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی حاطر خواہ مدد نہیں ہوتا۔ چیلم جوش کا تہوار وادی رمبور سے شروع ہو ا تھا اور بمبوریت سے ہوتے ہوئے وادی بریر میں ختم ہواجسے دیکھنے کے لیے کثیر تعداد می سیاح آئے تھے جن میں بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کا بھی تھا۔ضلعی انتظامیہ نے تہوار کے موقع پر کالاش قبیلہ کے لیے کھانے کا خصوصی انتظام کیا تھاجو رقص کے موقع پر مہیا کیا گیا۔

Print Friendly, PDF & Email