کوہستان کا ضلع اپر چترال والوں کو مبارک ہو!اے این پی رہنمافیض الرحمنٰ

جمہوریت میں نمائندہ قوم کا خادم و جواب دہ ہوتا ہے۔ چترال کے ہمارے نمائندے ابھی تک خود کو آقا اور عوام کو غلام سمجھے بیٹھے ہوئے ہیں اور ابھی تک چترالی قوم اپنے نمائندوں کو جواب دہ نہیں پاتی۔ جواب دہ تو خیر دُور کی بات ہے اُن تک آسانی سے رسائی بھی ممکن نہیں۔یہ بات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے   اے ایم پی چترال کے رہنماسابق چیئر مین   فیض الرحمنٰ  نے کہی۔ انہوں نے چترال کے نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات ہمارے نمائندوں کے لیے سوچنے  کے ساتھ ساتھ ان کی  ناکامی کا منہ بولتا  ثبوت ہےکہ کوہستان کے دو اضلاع بن سکتے ہیں تو چترال کے کیوں نہیں؟
رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو چترال KPK کا سب سے بڑا ضلع ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو چترال کو دو اضلاع یعنی اپر

چترال اور لوئر چترال کا درجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے چترال میں بعض ایسے عناصر ہیں جو کہ ہمیں روز بہ روز زوال کی طرف لے جا رہے ہیں۔ قوم پرستی، مذہب پرستی، علاقہ پرستی یہ تین ایسے عناصر ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پھر بھی بعض لوگ ان کو جان بوجھ کر اپنی ذاتی مفاد کے لیے استعمال کررہےہیں تاکہ اقتدار کے مزے لیتے رہیں۔
فیض الرحمن ٰ نے کہا کہ میں نے ان ب تمام باتوں کے بارے میں کافی سوچا اور آخرکار ANP جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرا ANP جوائن کرنے کی وجہ چترال کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور جنرل پرویز مشرف نے چترال کے ساتھ اپنے دلی لگاؤ کی وجہ سے بہت سے ترقیاتی کام کیے ہیں ہم چترالی ایک مہذب اور احسان مند قوم ہیں۔ بھٹو شہید اور جنرل مشرف کو اُن کی خدمت کے بدلے اُن کو تحفہ کے طور پر MNA اور MPA کی صورت میں دے چکے ہیں۔ اب اس میں چترال کے لیے دلی خلوص، اور دل سے محبت کرنے والا امیر حیدر خان ہوتی کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا جو کہ اپنے دورِ اقتدار میں ایک سیٹ بھی نہ ہونے کے باوجود 12دفعہ چترال کا دورہ کیا اور مختلف میگا پراجیکٹ کا بھی اعلان کیا تھا جو کہ مختلف روڈز اور یونیورسٹی کیمپس اور مختلف اداروں کی اپ گریشن کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

میں چترالی قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ANP کے اقتدار میں آنے کے صرف ایک مہینے کے اندر ہی امیر حیدر خان ہوتی اپنے دلی محبت اور خلوص کو ظاہر کرتے ہوئے چترال کو دو ضلعوں کا درجہ دیں گے۔
چترال میں یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ چترال کی ترقی میں کوئی کسر  نہیں چھوڑیں گے۔
میں اپنے چترالی بھائیوں، بہنوں خاص کر چترال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے اُمید ہی نہیں بلکہ یقین بھی ہے کہ وہ ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے 2018 کے الیکشن میں ANP کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے