وبائی امراض کی عالمی یلغار صدی بہ صدی!۔ ایکسپریس نیوز

بظاہر یونہی دکھائی دیتا ہے کہ لگ بھگ 100 سالوں میں ایک بار ضرور عالمی سطح پر وبائی امراض حملہ آور ہوتے ہیں۔ ابھی دنیا پچھلی وبا انفلوئنزا کی بے رحمی و سفاکی کو نہ بھول پائی تھی کہ جس نے سارے عالم میں تباہی مچائے رکھی تھی اور دنیا کے کروڑوں انسان اس فلو سے متاثر ہوئے اور جس سے اندازہ ہے کہ 100 ملین افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

آج اکیسویں صدی میں پھر سے دنیا کو وبائی مرض کی کاری ضرب کا سامنا ہے جسے ’’کورونا وائرس COVID-19 ‘‘ کہتے ہیں جو چین کے شہر ’’وُوہان ‘‘ سے نمودار ہوا اور اب اس نے قریب قریب ساری دنیا میں اپنا رنگ دکھا ڈالا ہے اور یہ 60 سے زائد ممالک کو اپنی جکڑ میں لے چکا ہے۔

چھ سو سال کی انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو متواتر وبائی امراض یا متعدی بیماریاں سر اٹھاتی رہی ہیں۔ 1720 ء میں طاعون، 1820 ء تک ہیضہ، 1918 ء سے 1920 ء تک فلو یا انفلوئنزا جو ’’اسپانوی فلو‘‘ سے بخوبی جانا جاتا ہے دنیا کے انسانوں کے لیے خوف ودہشت کی علامت بنا رہا تھا جس نے لاکھوں جانیں لے لیں۔ آج سو برسوں بعد ایک بار پھر ہمیں اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر وائرس کی ایک سب سے مہلک قسم ’’سارس‘‘ کی طرح کے جراثیم سے مقابلہ ہے جو پہلے وبائی مرض کی صورت میں 2003 ء میں جلوہ گر ہوچکا ہے اور اب نئی شکل میں یہ چین کے معاشی حب سے ابھر کے سامنے آیا اور بین الاقوامی اہمیت اختیار کرچکا ہے اس نے چین کی ساری اقتصادی ترقی کو بھی چیلینج کردیا ہے تو آخر ہونے کیا جارہا ہے؟ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ کوئی انسانی ذہن کی سازشی پیداوار کا نتیجہ ہے؟

14 صدی کا ایک خطرناک ترین مرض طاعون یا پلاگ جو کہ پہلے “Marseille” کے نام سے شروع ہوا اور پھر اسے “The Great Plague of Marseille” کہا گیا۔ اس میں اموات کا تخمینہ 50 ملین انسان تھے۔ ہیضہ کا پہلا مریض 1820 ء میں دنیا کے سامنے آیا یہ ایذا دینے والا قاتل بیکٹریا ایک نباتی جراثیم ہے۔ اگلے سو سالوں کے بعد دنیا نے ایک اور خطرناک جان لیوا جراثیم کا سامنا کیا۔ یہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا انفلوئنزا ہے اسکے شکار انسانوں کی تعداد کا اندازہ 100 ملین انسانوں کی موت لگایا گیا ہے۔ یہ دنیا کی آبادی کا تین سے چھ فیصد بنتا ہے۔

تین ماہ قبل شروع ہونے والا چینی کورونا وائرس بھی ایسی ہی جان لیوا وبائی مرض ہے یعنی ایسی بیماری جو کسی طرح پرندوں یا پالتو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسانوں تک بہ آسانی منتقل ہوتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ اس کی بھی ہلاکت خیز ی پچھلے کچھ کم نہیں ہے کیوںکہ یہ لاعلاج ہے اور اس کی ویکسی نیشن دریافت نہیں ہوئی ہے جس کی تیاری جاری ہے اور اس میں وقت درکار ہے۔ اس وائرس میں ایک زیادہ پریشانی کی بات ہے کہ یہ اڑ کر انسانوں میں داخل ہوتا ہے اور سانس کے ذریعے نظام تنفس میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے جب کہ اس کے آثار 14دنوں بعد سامنے آتے ہیں۔ محض اس وائرس سے خود کو بچانا ہی ابھی اس کا واحد علاج ہے۔

ابتدائی طور پر چین میں 35 ملین باشندے متاثر ہوگئے تھے جب کہ یہ وبائی مرض متواتر پھیلتا جارہا ہے اور دنیا میں بھی فروغ پارہا ہے۔ کورونا وائرس انسانوں تک چمگادڑوں کے توسط سے پہنچا ہے جن میں 130 وائرس پائے جاتے ہیں۔ چینی چمگادڑوں اور پینگولن کا گوشت کھاتے اور اس کا سوپ پیتے ہیں، اسی لیے ان کا گوشت مارکیٹس میں عام فروخت ہوتا تھا جس پر اب پابندی لگائی جاچکی ہے۔ چمگادڑیں انسانوں کے لیے سوائے موت کے سامان کے علاوہ کچھ بھی نہیں، ایبولا، نمفا اور کورونا وائرس چمگادڑوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ یہ سارس نسل کی چمگادڑوں سے چیونٹیاں کھانے والے جانور پینگولن میں بھی سراہیت کرجاتا ہے جو کہ انسانوں میں منتقل ہونے کی وجہ بنتا ہے۔

چمگادڑوں نے کورونا کو اونٹوں میں بھی پہنچایا جب کہ غالب امکان ہے کہ ’’ہورس شو‘‘ چمگادڑوں کو کھانے سے انسان متاثر ہوئے تھے جس کا شکار کرکے گوشت مارکیٹس میں سپلائی ہوتا رہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق چمگادڑوں کا جسم خطرناک جراثیمی وائرسوں سے ساتھ ارتقائی پاتا ہے اور ان کے مطابق ان چمگادڑوں کے مدافعتی نظام سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ قارئین کے لیے پچھلی وبائی امراض کی تاریخ سے آگاہی آج کے وبائی مرض کو کسی حد تک سمجھنے میں مددگار ہوگی۔

طاعون ـ”Plauge”کی وبا:

طاعون کی متعدی بیماری ایک بیکٹریم ــ ’’یر سینیا پیسٹس‘‘ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ علامات میں بخار، دردسر اور کمزوری شامل ہیں۔ یہ ایک ہفتے میں ظاہر ہوتا ہے۔ طاعوں کی تین قسموں ہیں ’’بوبونک پیسٹس‘‘،’’ سپیسٹی سمیک‘‘ اور ’’نیو مونک طاعون۔‘‘

اینٹی بائیوٹکس ادویات، مناسب دیکھ بھال اور طاعون کی ویکسین سے اس کا علاج کیا جاتا ہے اس کے ہر سال 600 مریض سامنے آتے ہیں۔ بیماری کی شدت میں سانس لینے میں تکلیف، کھانسی اور سینے میں درد ہوتا ہے۔ یہ بیماری عام طور پر پسّوؤں کے کاٹنے سے یا اس کے متاثرہ جانوروں کی نگہداشت کرنے سے پھیلتی ہے۔ نیومیٹک شکل میں یہ عام طور پر لوگوں کے مابین پانی کی بوندوں بذریعہ ہوا کے ساتھ آگے پھیل جاتی ہے۔

تشخیص کے لیے مریض کے خون یا تھوک کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ پانی میں اس کے جراثیم کی موجودگی سے بھی اس کی شناخت ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت علاج ہوجائے تو اس میں موت کا خطرہ 10 فی صد ہوتا ہے جب کہ مرض بگڑنے کی شکل میں موت کا خدشہ 70 فی صد تک ہوجاتا ہے۔ عالمی سطح پر طاعون کا انفیکشن کبھی کبھار امریکی ریاستوں کے دیہی علاقوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ جراثیم چوہوں میں رہ کر اپنی زندگی کا سائیکل پورا کرتے ہیں۔ چودہویں صدی میں طاعون نے تباہی مچارکھی تھی تب اسے ’’سیاہ موت ‘‘ (بلیک ڈیتھ) سے تعبیر کیا گیا جس کے حملوں کے نتیجے میں 50 ملین سے زائد لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب ایک پسّو کسی جان دار کو کاٹتا ہے تو اس کے زخم کو باقاعدہ خون آلودہ کردیتا ہے۔

متعدی مرض جراثیم سے متاثرہ برتنوں سے بھی پھیلتا ہے۔ ٹشو اور عضلات کی کمی کے نتیجے میں جسم میں خون کے جمنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے لہٰذا خون بہنے پر قابو نہیں رہتا جس کے باعث جلد اور دیگر جسمانی اعضاء سے خون بہنے پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور وہ بہتا رہتا ہے۔ ایسے میں مریض کو سرخی یا سیاہی مائل الٹیاں ہوتی ہیں۔ درست علاج سے چار سے ایک اعشاریہ پانچ فی صد موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ طاعون ایسی مہلک بیماری ہے کہ کچھ لوگ اس کی علامت ظاہر ہونے والے دن ہی وفات پاجاتے ہیں۔ یرسینیا کیڑوں کی بیماری جانوروں میں بکثرت عام پائی جاتی ہے۔ خاص کر چوہوں میں اور یہ ماسوائے آسٹریلیا تمام براعظموں میں موجود ہے۔

یہ بنیادی طور پر پسّو میں (رینو سلادچیپیس) موجود ہوتی ہے جو چوہوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ چوںکہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں انسانی طاعون شاذونادر ہی ہوتا ہے خاص طور پر علاوہ زیادہ مہلک کے معمول کی ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ طاعون کی ایک طویل ترین تاریخ رہی ہے۔ قدیم چین اور قرون وسطٰی یورپ کی تاریخ میں درج ہے کہ دشمن کی پانی کو آلودہ کرنے کے لے زیاگو / ہنس ، منگول اور ترکوں کے علاوہ دوسرے گروہ بھی متاثرہ جانوروں کی لاشوں جیسے کہ گائے یا گھوڑے اور متاثرہ انسانی لاشوں کا استعمال کرتے تھے۔ ہین شاہی جنرل ہود کیونیگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ژیاگو (Xiongnu)کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے ہوئے ایسی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔

1347 ء میں جزیرہ نما جینوس  (Genoese) پر کیفا کا قبضہ تھا، جزیرہ نما کریمیا ایک بہت بڑی تجارتی ایمپائر تھا جینی بِگ (Janibeg)کی کمان میں گولڈ ن ہارڈ کے منگول جنگجوؤں کی فوج نے اس کا محاصرہ کرلیا تھا اور طویل محاصرے کے دوران ان کے مطابق منگول فوج اس مرض سے دوچار ہوگئی تھی۔ انہوں نے متاثرین لاشوں کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کا فیصلہ کیا۔ لاشوں کو شہر کی دیواروں پر ٹانگ دیا گیا جس سے وہاں کے رہائشی متاثر ہوگئے تھے۔ ممکن ہے کہ اس واقعے سے ’’سیاہ موت‘‘ کو وہ اپنے بحری جہازوں کے ذریعے یورپ میں منتقل کرنے کا موجب بنے ہوں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جاپانی فوج نے بھی ہتھیاروں کے طور پر طاعونی بیماری کا استعمال کیا تھا۔ مینچوریا پر جاپانی قبضے کے دوران یونٹ 731 نے جان بوجھ کر چینی، کورین اور مینچورین شہریوں پر ان طاعون زدہ جراثیم سے متاثرہ کردیا تھا اور قیدیوں پر بھی اس کا اثر ڈالا۔

ہیضے “Cholera” کی وبا:

ہیضے سے متاثرہ مریض کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے، آنکھیں، ہاتھ پاؤں خشک ہوجاتے ہیں جس سے جلد بُھربُھری ہوجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں اسہال (دست) اور قے ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پٹھوں میں درد کی شکایت بھی ہوجاتی ہے۔ پانی میں کمی اور الیکٹرولائٹ میں عدم توازن یعنی معدنیات کا فقدان ہوجاتا ہے۔

آنتوں کے دہانے کے ذریعے سے ہیضہ پھیلنے کی وجوہات میں ہیضے کی ویکسین اور مُنہ کے راستے ڈی ہائیڈریشن تھراپی کی جاتی ہے۔ ایک سال میں اس وبائی مرض سے تین سے پانچ ملین مریضوں کی اموات ہوئی تھیں۔ وبریو ہیضے کی کچھ تناؤ کی وجہ چھوٹی آنت کا انفیکشن ہے، اس کی ہلکی علامات بڑھ کر شدید نوعیت تک جاسکتی ہیں۔ جسم سے پانی کی بڑی مقدار اسہال کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے، گھنٹوں میں پانی کی اشد کمی سے جلد نیلی ہوجاتی ہے۔ علامات ظاہر ہونے کے دوگھنٹے بعد دنوں میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔ ہیضے کی متعدد اقسام میں زیادہ تر غیرمحفوظ پینے کا پانی، غیرصحت بخش خوراک کے کھانے سے پھیلتا ہے جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔

اس سے بچاؤ کا اولین راستہ یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام ہو اور جراثیم سے پاک پانی تک رسائی ممکن بنائی جائے۔ یہ متعدی بیماری ہر سال 50 لاکھ لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح نہایت کم ہے۔ متاثرہ مریضوں میں اموات کا تناسب کم سے کم پانچ فی صد ہوتا ہے لیکن حالت بگڑنے سے یہ پچاس فی صد ہوسکتا ہے۔ درست علاج معالجہ نہ ہونے کی صورت میں موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ انگلینڈ میں جان برف کے ذریعے سے ہیضے کی بیماری کا مطالعہ سنہ 1849ء اور 1854 ء کے درمیان کیا گیا تھا جب وبائی امراض کے میدان میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔

اس مرض سے گذشتہ 200 سال میں لاکھوں اموات ہوچکی ہیں، سات بڑی ہیضے کی اقسام کے ساتھ وبائی مرض پھوٹ چکے ہیں۔ ہیضے کو ’’نیلی موت‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے کیوںکہ ایسے شخص کی جلد نیلی بھوری پڑسکتی ہے جب کہ ہیضے میں بخار شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ جگہوں صفائی ستھرائی نہ رکھی جائے تو یہ ماحول میں اس کے متاثرہ تعداد کو دس گنا بڑھا سکتا ہے البتہ یہ بیماری براہ راست کسی ایک فرد سے دوسرے کو نہیں لگتی۔ 1966 ء میں ہیضے کے خلاف حفاظتی ٹیکا لگایا گیا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ساری دنیا میں تین سے پانچ ملین افراد میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔

یورپ میں یہ متعدی بیماری 1642 ء کے اوائل میں مغربی ادب سے ملتی ہے۔ ڈچ معالج جیکوپ ڈی بونڈ تھ نے اپنی کتاب ’’ڈی میڈی سیناانڈوررُم‘‘ میں اس کی تفصیل لکھی ہے ’’انڈوررُم سے مراد ’’ایسٹ انڈیا‘‘ ہے یعنی ہندوستان۔ یہ انڈیا سے تجارتی زمینی و بحری راستوں 1817 ء میں روس تک پھیل گئی تھی۔ دوسو سال میں وبائی ہیضے نے مہینوں ہلاکت خیزی جاری رکھی۔ وبائی مرض ہیضہ 1826 ء سے 1837 ء تک جاری و ساری رہا خاص طور پر تجارتی نقل وحمل میں پیش رفت کے صلے میں شمالی امریکا و یورپ کو ہٹ کرچکا تھا۔ اس ہیضے کی تیسری لہر 1846 ء میں وارد ہوئی جو کہ 1860 تک برقرار رہی۔ شمالی افریقہ تک پھیلتی ہوئی پہلی بار جنوبی امریکا میں برازیل پر بھی حملہ آور ہوگئی۔

ہیضے کی چوتھی لہر 1863 ء سے 1875 ء کے مابین پھوٹی جو ہندوستان سے لے کر نیپلس (اٹلی) اور اسپین جاپہنچی اور وہاں اپنے اثرات دکھائے۔ پانچویں بار ہیضے کی ’’نیلی موت‘‘ نے اپنا سر بدستور 1881ء سے 1896 تک اٹھائے رکھا۔ ہیضے کی اگلی لہر جو چھٹی بار دنیا پر وارد ہوئی 1899 ء سے 1923 ء تک انسانوں کے لیے دردسر بنی رہی اور انہیں تکالیف سے دوچار کیا۔

اس بار ہیضے کے بیکٹریا کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہوجانے سے وبائی مرض قدرے کم مہلک رہا تھا جب کہ اس چھٹی لہر نے مصر، عرب، جزیرہ نما فارس، ہندوستان اور فلپائن کو اپنا گھر بنایا اور انسانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا جب کہ دوسرے ممالک 1892 ء جرمنی، 1910 ء سے 1911 ء نیپلس میں شدید ہیضے کے وبائی حملوں کا سامنا رہا۔ ساتویں ہیضے کی لہر آخری وبائی ضرب تھا جب متعدی بیماری نے انڈونیشیا میں اِل تو ر(El tor) کے نام سے نیا تناؤ پید ا کردیا تھا جس کا کہ آغاز 1961 ء سے ہوچکا تھا۔ ہیضے کی وبا نے 1,50,000 امریکیوں کو موت کی نیند سلادیا۔ 1900 ء سے 1920 ء کے مابین ہیضے نے آٹھ لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں لی تھیں۔ ہیضے کی وبا اگر پھیلنا شروع کردے تو حکومتی تیاری انتہائی ضروری ہوجاتی ہے۔

فلو یا انفلوئنزا”Spainish Flu”کی وبا:

دنیا پر عالمی سطح پر فلو یا انفلوئنزا وبائی حملے جنوری 1918 ء سے دسمبر 1920 ء تک جاری رہے تھے۔ یہ انفلوئنزا جو غیرمعمولی وائرس انفلوئزH1N1 ہے ۔ عرف عام میں یہ ’’اسپینش یا ’’ہسپانوی فلو‘‘ سے جانا جاتا ہے۔ اس وائرس میں دو بیماریاں ہیں جن میں یہ پہلی ہے جب کہ دوسرا وائرس ’’سوائن فلو‘‘ کے نام سے 2009 ء میں دنیا پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ کرۂ ارض کی 500 ملین افراد کی آبادی اس کا شکار ہوچکی ہے جو کہ 8.1 بلین میں کی کل آبادی کا 27 فی صد ہے۔ اس کے متاثرہ علاقے دوردراز کے بحرالکایل کے جزیرے اور آرٹک علاقے کے لوگ شامل ہیں۔

اس خوف ناک وبائی مرض سے ہلاکتوں کا تخمینہ 50 ملین ہے اور ممکنہ طور پر یہ 100 ملین تک ہوسکتی ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا تین سے چھ فی صد بنتا ہے۔ انسانی تاریخ کے مہلک ترین وبائی مرضوں میں سے ایک فلو ہے ۔ 1920 ء تک رہنے والے انفلوئنزا وائرس خاص طور پر انسانی جانوں کے لیے ہلاکت انگیز وائرس کی شکل میں انسانوں کی موت کا سامان لے کر آیا، کیوںکہ یہ ’’سائیٹو کاٹن ‘‘ بہت زیادہ جوان اور بہت بوڑھے لوگوں پرا پنا اثر زیادہ دکھایا تھا، جس میں امریکا میں مرنے والے نوجوانوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہوئی تھی۔ ہسپانوی فلو وبائی مرض سے کم بالغ افراد میں اموات زیادہ ہوئی تھیں۔ یہ مضبوط مدافعتی نظام کو تہہ وبالا کرڈالتا ہے۔ فرانس کے شہر اٹلیس میں موجود فوجی دستوں اور طبی کیمپوں کی تحقیق نے اسپانوی فلو کے وار ہونے کی نشان دہی کی تھی۔ یہ تحقیق1999 ء کی ہے جسے ایک برطانوی ٹیم نے شائع کروایا تھا۔ اس ٹیم کی سربراہی وائرس کے ماہر جان آکسفورڈ نے کی تھی۔

روزانہ ایک لاکھ فوجی کیمپوں میں وقت بسر کرتے تھے، کیمپوں میں ان کے ساتھ کھانے کا گوشت بھی وافر مقدار میں موجود رہتا تھا جس کی باقاعدہ فراہمی کا ذریعہ نزدیکی دیہات کی پولٹری اور سور کے فارمز تھے، جہاں سے یہ خریدا جاتا تھا۔ آکسفورڈ کی ٹیم نے یہ موقف اپنایا کہ پرندوں میں محصور ایک پیشگی وائرس کیمپ میں رکھے ہوئے گوشت میں منتقل ہوگیا۔

ایسے بھی دعوے کیے گئے تھے کہ اس وبا کی ابتدا امریکا میں ہوئی۔ مورخ الفریڈ ڈبلیوکروسبی نے یہ دعویٰ کرڈالا تھا کہ اس فلو کی شروعات کینساس میں ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں چین میں اس فلو سے مجموعی لحاظ سے اموات کی شرح نسبتاً کم ہوئیں اور چین میں نہایت ہلکا فلو کا موسم رہا تھا اور کم اموات کی شرح کی وضاحت اس حقیقت سے ہوجاتی ہے کہ چینی آبادی پہلے ہی فلو سے استثنیٰ حاصل کرچکی تھی۔ کچھ کا خیال یہ بھی تھا کہ فلو کی آغاز مشرقی ایشیا میں ہوا جو جانوروں سے انسان میں مرض کا موجب بنی جو مرغیوں سے منتقل ہوئی تھی۔ جنگ عظیم میں قریبی حلقوں اور وسیع پیمانے پر فوجی یونٹس کی نقل وحمل نے وبائی مرض کے لیے سفری رابطے کا کام کیا اور اسے بڑھاوادیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست کینساس کے شہر باسکل کاؤنٹی میں پہلی بار یہ مرض دیکھا گیا تھا۔

مارچ 1918 ء میں اس کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والی کمپنی کے باورچی البرٹ گچل نے فورٹ ایلی نامی ایک امریکی فوجی مرکز پر اپنی بیماری کی اطلاع دی۔ عین اس وقت جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کی تربیت جاری تھی، اسے ’فلو‘ کا سب سے پہلا ریکارڈ شدہ شکار سمجھا گیا۔ 11 مارچ 1918 ء تک وائرس نیویارک کے علاقے ’’کوئنز‘‘ تک رسائی پاچکا تھا۔ اگست 1918 ء میں یہ بریسٹ۔ فرانس میں یک جا طور بھیانک کشیدگی پھیلنے کی وجہ بنا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس وبائی بیماری کو ’’اسپینش فلو‘‘ ہی کے نام سے پکارا۔ بنیادی طور پر اس لیے کہ نومبر 1918 ء میں فرانس سے اسپین منتقل ہونے کے بعد اس وبائی مرض نے اپنا زیادہ دباؤ بڑھادیا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں کُل 17 ملین اموات ہوئیں اور دوسری جنگ عظیم میں 60 ملین افراد مارے گئے تھے، جب کہ فلو کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد دونوں جنگی ادوار کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں عالمی وبائی مرض ’کالی موت‘ کے بعد انفلوئنزا کی یہ بڑی خونی لہر تھی جس نے لاکھوں انسانی جانیں نگل لیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انفلوئنزا نے اپنے ابتدائی 25 ہفتوں میں 25 ملین جانیں لیں، جب کہ پرانے تخمینے کی رو سے 40 سے 50 ملین ہوسکتے ہیں جوکہ تین سے پانچ فی صد ہے لیکن گمان ہے کہ پانچ فی صد سے بھی زیادہ یعنی 100 ملین تک انسانوں جانوں کا زیاں ہوا تھا۔

اس فلو نے 24 ہفتوں (چھ ماہ) میں جتنے فلو سے ہلاک ہوئے تھے اتنے آج کی مہلک بیماری ایچ آئی وی۔ ایڈز سے ہونی والی 24 سالوں کی اموات سے بھی زیادہ ہیں تاہم کالی موت نے دنیا کی آباد ی کا بڑا حصہ مارڈالا تھا۔ ہندوستان میں 17 ملین اموات ہوئیں جو کہ آبادی کا پانچ فی صد بنتا ہے۔ ہندوستان کے برطانوی راج والے اضلاع میں ہلاکتوں کی تعداد 1388 ملین بتائی جاتی ہے۔ گھانا (افریقہ) میں 100,000 ، امریکی سمویا میں3800 ہزار لوگ مرے، جاپان میں 23 ملین متاثرہ ہوئے اور کم ازکم 390,000 اموات ہوئیں، ایران میں 902,400 سے،24,31000 اموات ہوئی تھیں جوکہ ایرانی آبادی کا 8 فی صد سے 22 فی صد تک بنتا ہے۔ جنوبی امریکا میں برازیل کے صدر ’روڈیگزایلو‘ سمیت 00,000 3 افراد لقمہ اجل بنے۔ امریکا میں28 فی صد متاثرہ مریضوں میں 500,000 سے 675,000 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ کینیڈا میں 50,000 ہزار ، برطانیہ میں 250,000 ، فرانس میں 400,000 سے زائد اور انڈونیشیا میں 1.5 ملین یا 13 فی صد، چین میں ایک فی صد اور روس میں 4,5000 لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

اکتوبر 1918 ء کا سارا مہینہ فلو کی تباہ کاریوں سے لبریز تھا۔ مرض پھیلانے میں جنگ عظیم اوّل کا کردار بہت اہم ہے۔ بحرالکاہل کے متعدد علاقوں میں اس بیماری کے مرکز بنے یہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے یہ نیوزی لینڈ پہنچا۔ 1999ء تک اس فلو سے 99 فی صد بالغ نوجوان مرض کا شکار ہوئے۔ 1920 ء میں امریکا میں اس کا تناسب 65 سال کے بوڑھے اور بالغ جوانوں میں 20 سے40 سال کے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ حقیقت میں چین سے ہی ہسپانوی فلو کی شروعات ہوئیں تھیں جس سے چینیوں میں مرض کے خلاف مزاحمت پائی گئی۔ چین میں اموات کی زیادہ تر مقامات پر کم رہی اور مجموعی طور پر چین فلو سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اکتوبر 1918 میں وبائی مرض کی جانب دوسری لہر کے ذریعے سے سنگین وارداتوں کا وقت تھا۔ اسی سال کے اواخر میں مہلک ترین فلو کی دوسری لہر اٹھی۔

یہ اکتوبر کا اختتامی ہفتہ تھا جب فلے ڈیلفیا (امریکا) میں مرنے والوں کی تعداد 4,592 ہوگئی تھی۔ اگلے ہی ماہ 11 نومبر کو اچانک ہی انفلوئنزا شہر سے روپوش ہوچکا تھا۔ وبائی مرض فلو نے 9 ماہ سے کم مدت میں برق رفتاری سے امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک کے متاثرہ مریضوں کو ہلاک کرڈالا تھا جس کی میڈیا میں محدود تشریحی ہوئی تھی۔ امریکا میں کی کل آبادی میں فلو سے ہلاکتوں نے لائف انشورنس کمپنیوں کا دیوالیہ نکال دیا جنہیں لائف پالیسی کے تحت لواحقین کو 15.3 سے 27.8 بلین ڈالرز ادا کرنے پڑے تھے۔

نئی صدی کا نیا مہلک ترین وائرس کورونا اب عالمی سطح کی بیماری بن کر ساری دنیا کو پریشان کررہا ہے۔ افسوس ناک طور پر ابتدائی طور پر چینیوں نے اس وبائی مرض کے معاملے میں غیرسنجیدہ رویہ اختیار کیا، جب ووہان شہر کے مرکزی اسپتال کے ایک آنکھوں کے ڈاکٹر لی ِوینلیانگ کے ساتھ غیرمناسب برتاؤ رکھا گیا۔ ڈاکٹر لی ہی وہ پہلے چینی ڈاکٹر تھے جنہوں نے اس مہلک مرض کورونا کی نشان دہی کی تھی اور 30 دسمبر 2019 ء کو اس سے خبردار کردیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ 2003 ء کے وبائی مرض سارس وائرس سے ملتا جلتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر اور ان کے آٹھ ساتھی ڈاکٹروں پر افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں باز رہنے کی تنبیہ کی گئی۔

10جنوری 2020 ء کو ڈاکٹر لی کو کھانسی کی شکایت ہوئی جب کہ ان کے والدین بھی بیمار پڑگئے تھے۔ بدقسمتی سے لی کے تمام ٹیسٹ کے باوجود ان میں کورونا وائرس کی تصدیق نہ ہوسکی جو کہ بعد میں 30 جنوری کو کنفرم ہوسکا، افسوس کہ وہ بچ نہ سکے۔ اصل میں ڈاکٹر لی نے ایک ایسی خاتون کے کالے موتیا کا آپریشن کیا تھا جو کہ کورونا سے متاثر ہوچکی تھی۔ 20 جنوری کو باقاعدہ طور پر چینی سرکاری حکام نے کورونا وائرس کی حقیقت کا اعلان کردیا۔ وہاں اب تک 80,000 ہ کے قریب چینی متاثر ہوچکے ہیں اور 2700 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جب کہ 36,000 کے زائد مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں 70 کے قریب ملکوں میں کورونا سے متاثر مریضوں کی تعداد 90,000 سے تجاوز کرچکی ہے اور کل ہلاکتیں 3000 ہزار سے زائد ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بھی کورونا کے مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور یہاں یہ مرض ایران سے آیا ہے جس نے قم کے مقدس شہر کو زیادہ متاثر کیا ہے اور یہ سطور لکھے جانے تک ایران میں 54 سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔

ایران کے نائب وزیر صحت جناب ارج ہریکی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔ چین کے بعد سب سے زیادہ وائرس سے متاثرہ ملک جنوبی کوریا ہے جہاں اب تک کورونا کے شکار 4000 سے زائد مریض ہیں جن میں 22 سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جب کہ امریکا میں 90 زائد مریض سامنے آئے جن میں 6 کی موت واقع ہوچکی ہے۔

یورپ میں اٹلی سب سے زیادہ کورونا وائرس کا شکار ہوا یہاں 300 سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں جن میں 30 سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں جب کہ برطانیہ میں 51کیس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جب کسی متاثرہ شخص کو کھانسی یا چھینک آتی ہے تو اس کے اطراف میں پانچ لاکھ سے زائد جراثیمی وائرس بکھر سکتے ہیں۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت ہمیشہ سے صابن سے اچھی طرح ہاتھوں کو دھونے پر زور دیتا رہا ہے۔ ڈبلیو۔ ایچ۔ او نے اکیسویں صدی کے وبائی وائرس کے بارے میں کہا ہے کہ کورونا کے مریضوں میں شرح اموات صرف دو سے پانچ فی صد رہی ہے۔ اس کے مطابق وبائی مرض کا زیادہ اثر 60سال یا اوپری عمر کے افراد یا ان لوگوں میں ہورہا ہے جن کی صحت اچھی نہیں یا ان کے پھیپھڑے متاثر یا کمزور ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تمام دنیا کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا کے مریضوں کے لیے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز رکھیں اور آکسیجن کی دست یابی کو ممکن بنائیں۔

Print Friendly, PDF & Email