All-focus

مس کیری کے خلا ف طلباء کا احتجاج۔ بدعنوانی کے الزامات اور سکول کی نظام کو تباہ کرنے کا الزامات

چترال(زیل نمائندہ) سایورج پبلک سکول جو بعد میں میجر جی ڈی لینگ لینڈ کے نام سے منسوب ہوا اس سکول کے برطانوی خاتون پرنسپل Miss Carey Schofield  کے خلاف سکول کے طلباء نے  پر زور انداز میں احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں بعض اساتذہ  بھی شامل تھے۔ طلباء نے ڈپٹی کمشنر چترال کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور گو کیری گو کے نعرے لگائے۔ ان طلباء و طالبات نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن  پر Miss Carey Schofield  کے خلاف نعرے درج تھے اور اس کے خلاف حکومت سے احتساب کرنے کے مطالبات کئے گئے تھے۔ جبکہ طلباء نے  ڈی سی آفس میں ہی دھرنا دیا۔
سکول کے اساتذہ نے ڈی سی آفس میں  جا کر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مذاکرات کئے کیونکہ ڈپٹی کمشنر چھٹی پر تھے۔ ان اساتذہ نے اے ڈی سی ذاکر حسین کو تمام حالات سے خبردارکیا۔جبکہ ان کے ساتھ بچوں کے والدین بھی احتجاج میں شامل تھے اور انہوں نے بھی اے ڈی سی کو شکایات کی انبار لگادئے۔ اساتذہ نے کہا کہ سکول کی پالیسی  پاکستان میں رائج الوقت نظام، انسانی حقوق اور تعلیمی پالیسی کے بالکل حلاف ہے جس کی وجہ سے یہ سکول تباہی کے کنارے کھڑا ہے۔ سکول میں پہلے طلباء کی تعدا د گیارہ سو تھی جو کم ہوکر صرف سات سو رہ گئی۔انہوں نے کہا کہ میس کیری کو جب ویزہ نہیں ملا تھا  تو دس مہینے سکول سے باہر رہی مگر اس نے ایک ہی چیک کے ذریعے ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے بنک سے نکالے۔
طلباء نے جنگ بازار کے سکول عمارت میں احتجاج کیا اور Miss Carey Schofield  کے حلاف نعرہ بازی کی۔ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے ایک طالب نے کہا کہ چترال کے ایک بااثر شحص کے داماد کو سکول کی یونیفارم کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اور اسٹیشنری بھی ٹھیکہ پر دیا گیا ہے جو یونیفارم بازار میں چار ہزار روپے میں ملتا ہے  جس میں پینٹ، شرٹ، کوٹ، بوٹ شامل ہیں وہ یونیفارم سکول میں ہم پر دس ہزار روپے کے عوض زبردستی فروخت کرتی ہے۔ ایک اور طالب علم نے کہا کہ پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی نے اعلان کیا تھا کہ چھٹیوں کے درمیان طلباء سے فیس نہیں لی جاے گی مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے میس کیری نہ صرف ہم سے چھٹیوں کے دوران فیس لیتی ہے بلکہ فیس جمع نہ کرنے کی صورت میں اس  پر جرمانہ بھی لگادیتی ہے۔ چند اور طلباء نے شکایت کی کہ ان کے جو چاپلوسی کرنے والے ہیں ان کے بچوں کو مفت سبق پڑھاتی ہے مگر ہمارے ساتھ ان کا رویہ کچھ اور ہے اگر دو سگے بھائی ایک ہی کلاس میں پڑھتی ہے ان دونوں سے پورا فیس لیا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف  کے نائب صدر شاہد احمد نے بتایا کہ وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ نے ان کو دس کروڑ روپے کا گرانٹ دیا تھا کہ سکول میں  ہال اور ہاسٹل تعمیر کی جائے مگر انہوں نے وہ  پیسے کہاں لے گئی کسی کو پتہ نہیں۔ سید مظہر علی شاہ لینڈ سٹلمنٹ آفیسر چترال نے بھی اس بات کی تصدیق کرلی کہ وزیر اعلےٰ کی طرف سے  دس کروڑ روپے گرانٹ کا چیک ہم نے سکول کے انتظامیہ کو دیا تھا۔ چند طلباء نے شکایت کی کہ ان کو زیادہ تر سکول کی بسیں سعید اللہ خان پراچہ نے مفت دئے ہیں مگر ہم سے بہت زیادہ ٹرانسپورٹ فیس لی جاتی ہے۔
اساتذہ نے کہا کہ اسٹاف ہاؤس کے نام پر لاکھوں روپے  کی لاگت سے پرنسپل کی ایک منظور نظر شحص کے جائداد میں  بنی ہے مگر اساتذہ کو اس عمارت میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہے اور پرنسپل صاحبہ اپنی ذاتی مہمانوں کو وہاں ٹھراتی ہے انہوں نے کہا کہ سکول کی اراضی میں اس عمارت کیلئے جگہہ موجود تھی مگر میس کیری نے جان بوجھ کر اس عمارت کو ایک شہزادے کے جائداد میں بنائی اور کل اگر یہ چلی جاتی ہے تہ یہ عمارت اس کی ملکیت ہوں گی۔
شہزادہ گل نے کہا کہ Miss Carey Schofield  کوئی ماہر تعلیم نہیں ہے وہ برطانیہ میں کسی چھوٹے اخبار کی رپورٹر تھی اس کی آنے سے ہمیں  یہ امید تھی کہ وہ بچوں کو انگریزی پڑھائی گی مگر وہ سکول میں کوئی کلاس نہیں لیتی اور مفت میں دو لاکھ پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ لیتی ہے۔ سابقہ ناظم  ریاض احمد نے شکایت کی اس کی آنے سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا حطرہ ہے کیونکہ وہ بچوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اور کئی مالی بدعنوانی  میں ملوث ہے
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سکول میں نام نہاد بورڈ آف گورنر بنائی گئی ہے جس میں زیادہ تر اراکین غیر مقامی ہے اور صرف ون میں شو ہے۔
 طلباء، اساتذہ اور والدین نے  چیئرمین احتساب بیورو، وزیر اعلےٰ۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ Miss Carey Schofield  کے حلاف تحقیقات کرے اور اس نے ایک ہی چیک کے ذریعے جو ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے نکالے ہیں وہ اس سے واپس لی جائے۔ اور اس  نے جتنے مالی بدعنوانی کی ہے ان کا اس سے حساب کی جائے نیز ایک غیر جانبدار  کمیٹی کے ذریعے سکول کا آڈٹ کی جائے۔ طلباء اور استاذہ نے متنبہ کیا کہ اگر میس کیری کے حلاف تحقیقات کرکے اس کا احتساب نہیں کیا گیا اور اسے اگر دوبارہ اسی سکول میں لانے کی کوشش کی گئی تو وہ اس سے بھی زیادہ پر تشدد احتجاج کریں گے جس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر ہوں گی۔
Print Friendly, PDF & Email