خستہ حال تورکہو روڈ

تورکہو روڈ سب تحصیل تورکہو اور تریچ کے دیہات کو ضلع اور اسی طرح ملک کے باقی حصوں سے جوڑتا ہے۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا یہ راستہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے، حکومتی عدم توجہی اور ادارتی لا پرواہی کی وجہ سے دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔ چترال کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے خراب، پرخطر اور سالوں سے مرمت کے منتظر راستوں کے بارے میں ایک سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ راستے خچر چلانے کے لائق بھی نہیں۔ ان کا یہ بیان چترال کے تمام راستوں کے بارے میں عام طور پر اور تورکہو روڈ کے بارے میں خاص طور پردرست ہے۔ جگہ جگہ پڑے گڑھوں کی وجہ سے یہ روڈ 21ویں صدی کے سڑک کی بجائے اثارِ قدیمہ کے کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔

کئی جگہوں پر پہاڑوں سے گرنے والے ملبے نے راستے کا حلیہ تبدیل کردیا ہے۔ پہلے سے تنگ راستے مزید دشوار گزار ہوگئے ہیں۔ آبادیوں کے درمیان سے گزرنے والے راستے کے بیشتر حصے پر پانی کی نہروں کا قبضہ ہے۔ راستے کو کاٹ کر نہر بنایا گیا  ہے، جن کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں۔ بعض جگہوں پر تو راستے اور نہر کا فرق ہی ختم ہوگیا ہے۔ پانی کے گزرنے کی وجہ سے روڈ گڑھا بن گیا ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف مسافروں کو اذیت کا سامنا ہے بلکہ ڈرایئور حضرات بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔

چند ہفتے پہلے روڈ کی مرمت کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر تورکہو اور تریچ کے ڈرائیوروں نے ہڑتال کی تو سی اینڈ ڈبلیو نے ایک نمائشی بلڈوزر روڈ کی مرمت کے نام پر بھیجا، جو ورکوپ میں بیکار کھڑا ہے۔

ندی نالوں پر بنے پلوں کی حالت بھی بدتر ہے۔ لکڑی کے بنے ہوئے پل خستہ حالت میں ہیں۔ کئی دیہائیاں  پہلے کے بنے ہوئے پلوں میں سے بعض سیلاب  برد ہوچکے ہیں، جبکہ بعض دوسرے اپنی معیاد پوری کرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی مرمت کا کوئی بندوست نہیں۔

تورکہو روڈ کے پختہ کئے جانے کا مژدہ ۲۰۰۰ء سے ابھی تک تمام منتخب نمائندوں نے سنایا اور سبھی نے اس کا کریڈٹ اپنے سر لینے کی کوشش کی۔ کئی نے تو فیس بک پر اس کی خوشیاں بھی منائیں، لیکن یہ سڑک ہے کہ بننے کا نام ہی نہیں لے رہا۔  گذشتہ کئی سالوں سے اس سڑک پر کام کا آغاز ہونے اور کام بند ہونے کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ قاقلشٹ کے مقام پر سڑک کنارے چند مشینیں  کھڑی ضرور ہیں، لیکن سڑک پر کام ہوتے ہوئے خال خال ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

رائین  کی ندی پر بنا پل کئی سال پہلے سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ اسی کی جگہ عارضی پل کے نام پر چند لکڑیاں رکھ کر سی اینڈ ڈبلیو نے جان چھڑائی ہے۔ رائین میں ہی اسی ندی پر بننےوالےنئے پل پر کام کی رفتار سے لگتا ہے کہ یہ پل ایک دہائی میں بن جائے گا اور نئے پل میں جس قسم  کے سرئیے استعمال ہوئے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس پل کی عمرِ بھی زیادہ لمبی نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email