بنیادی تعلیمی  کمیونیٹی سکول سے وابسطہ ٹیچرز سراپا احتجاج  

چترال(زیل نمائندہ)بنیادی تعلیمی کمیونیٹی  سکول کی استانیوں کا  تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور بندش کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کے دوران متاثرہ استانیوں کے بچوں نے بنیرز اورپلے کارڈز اٹھارکھے تھے جن پر انصاف کے حصول کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس موقع پر پردوم جمال نے کہا کہ چترال میں 83 استانیاں ہیں  جو کرائے کے مکانوں میں ان بچوں اور بچیوں کو پچھلے بیس سالوں  سے پڑھا رہی  ہیں  اور ان کو صرف آٹھ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پچھلے نو ماہ سے تنخواہیں بھی بند ہیں اوروہ  در بدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں۔ انہوں نے دل دہلانے والا انکشاف کیا کہ ان کو پہلے سکول کی عمارت کے لیے  کرائے کی مد میں ایک ہزار روپے ملتا تھا اب وہ بند ہوچکا ہے اور یہ خواتین اپنی تنخواہ میں سے عمارت کا کرایہ بھی ادا کرتی ہیں۔ بیسیک ایجوکیشن کمیونیٹی سکول میں ایسی استانیاں بھی پڑھاتی ہیں جو بہت قابل ہیں اور ایک استانی پردوم جمال جو بونی کروئی جونالی میں پڑھاتی ہے اسے بہترین استانی کی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ جمیلہ بی بی نے کہا کہ انہوں نے اپنی جوانی کی بیس سال ان بچوں کو پڑھانے پر صرف کی اب بڑھاپے کی عمر میں آکران

کی تنخواہیں بند کرکے فارغ کررہے ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔ حلیمہ بی بی نے کہا کہ ہمارے بعض سکولوں میں چھت بھی نہیں ہے اور اکثر باد و باران اور  برف باری یا بارش کی صورت میں وہ بچوں کو لیکر کسی خیمے میں پناہ لیتی ہیں یا کسی مکان کے کمرے میں لے جاتے ہیں۔  اتنی مشکل حالات میں پڑھانے کے باوجود ان کوصرف 8000 روپے مہینے کی ملتی تھی اور وہ بھی پچھلے نو ماہ سے بند ہیں۔ ان استانیوں نے بتایا کہ ان کے بعض سکولوں میں چالیس بچے پڑھتے ہیں جبکہ بعض سکولوں میں 63تک بچے زیر تعلیم ہیں اور ان کی تنخواہیں بند ہونے کی صورت میں ان بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہونے کا خطرہ ہے۔ چونکہ یہ سکول وفاقی حکومت کے تعاون سے چل رہے ہیں  تو انہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا کہ ان کی تنخواہیں جاری کی جائے اور ان کو مستقل بنیادوں پر ان ہی سکولوں میں بطور  استانی کا حکم جاری کریں تاکہ ان کے زیر سایہ کئی بچے تعلیم سے محروم رہ نہ جائیں۔  چترال  رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ضلع ہے اور یہاں اکثر دور دراز تک سکول موجود نہیں ہیں تاہم یہ  بیسک ایجوکیشن  کمیونٹی سکول علم پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ۔

 

 

 

Print Friendly, PDF & Email