چترال(زیل نمائندہ) چترا ل کا مضافاتی علاقہ شاہ
میراندہ کے رہائشی پچھلے دو سالوں سے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ اس گاؤں کو
پہلے واٹر اینڈ سنیٹشن یونٹ WSUچترال سے انگار غون (شاہ شاہ) کے واٹر سپلائی سکیم سے دن
میں دو مرتبہ دو گھنٹوں کے لیے پانی فراہم کرتے تھے جس سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی اسٹاک کرتے تھے۔ عوامی
نیشنل پارٹی کی حکومت میں بتیس کروڑ روپے کی لاگت سے گولین گول واٹر سپلائی سکیم
پر کام کا آغاز ہوا اس وقت مقامی لوگوں کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جب گولین کا
منصوبہ مکمل ہوجائے تو چیو پُل کے اوپر سے پانی کا پائپ جو دریا کے اس پار علاقوں
کو پانی فراہم کرتا ہے اسے بند کیا جائے گا۔ دنین اور مضافاتی علاقوں کو گولین کا
پانی فراہم کیاجائے گا اور انگار غون کا پانی دریا سے اِ س پا ر یعنی سینگور، بلچ
اور ملحقہ دیہات سمیت شاہ میراندہ وغیرہ کو فراہم کیا جائے گا مگر جب یہ منصوبہ
مکمل ہواتو شا ہ میراندہ کو دن میں صر ف دو گھنٹوں کے لیے دینے والا پانی بھی بند ہوا۔ مقامی لوگ شک کرتے
ہیں کہ شاید WSU نے ان کو سبز باغ دکھایا اور اب بھی یہ پانی دنین
کے علاقوں کو فراہم کی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں جب WSU کے منیجر منیر احمد سے پوچھا گیا کہ شاہ میران دہ
میں دو سالوں سے پانی نہیں آتا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پانی کی شدید قلت ہے اس
لیے ٹینکی میں پانی پورا نہیں ہوتا مگر اس
کے جھوٹ کا بھرم اس وقت کھلا کہ جب شاہ میراندہ کے اوپر سے دو انچ کا پائپ پڑوسی
گاؤں سینجال کو دیا گیا ہے جس میں انگار غون ہی کا پانی ساری رات فراہم کی جاتی ہے
اور یہ پانی اتنی دباؤ سے آتا ہے کہ اس سے پائپ پھٹ گیا اور اگلے روز یہ پائپ
راستے میں پڑا تھا جس سے دریا کی طرح پانی تیزی سے نکل رہا تھا۔
شاہ میراندہ کے ایک معمر شحص حاجی سعید اللہ نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ
ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ سینجال گاؤں کو ساری رات دن دو انچ کے پائپ
میں پانی دیا جارہا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ شاہ میراندہ کو کیوں پانی سے محروم
کیا گیا ہے جبکہ WSU والے جھوٹ بول رہے ہیں کہ ان کے پاس پانی کا کمی ہے
حالانکہ اس سے پہلے اسی منصوبے سے دریا کے اُس پا ر کے علاقوں کو بھی پانی فراہم
کی جاتی تھی مگر جب سے گولین گول پانی کا منصوبہ مکمل ہوا تو یہ پانی زیادہ اور فالتو
ہونے کی بجائے کم کیسے پڑا؟
اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے WSU اور تحصیل میونسپل انتظامیہ کے دفتر کا بھی چکر
لگایا تاکہ ان کا موقف لیا جائے مگر WSU کا منیجر بھی موجود نہیں تھا اور تحصیل میونسپل
آفیسر بھی کسی کام سے باہر گئے تھے۔ جبکہ تحصیل ناظم مولانا محمد الیاس کے نوٹس
میں یہ بات لائی گئی کہ سینجال گاؤں کو پورا دن رات 2 انچ کے پائپ میں انگار غون سے
پینے کا پانی فراہم کی جاتی ہے مگر شاہ میران دہ کے ایک ہزار کے آبادی کو مکمل طور
پر د و سالوں سے محروم کیا گیا ہے اور ان سے پانی کی مد میں ماہوار ڈیڑ ھ سو روپے
بل بھی وصول کی جاتی ہے۔شاہ میران دہ کے لیے محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کی جانب سے
شمسی توانائی سے چلنے والے موٹر کے ذریعے پانی فراہم کرنے کے منصوبے پر پچھلے دو
سالوں سے کام جاری ہے ۔ایک مقامی سماجی کارکن سجاد احمد نے کہا کہ ہمارے علاقے میں
انگار غون کا صاف پانی نہیں آرہا ہے اس لیے ہم لوگ کوٹی گول کے گندا پانی پینے پر
مجبور ہیں جسے جانور بھی پیتے ہیں اور ہم بھی پیتے ہیں اور اس پانی میں بہت گند
آتا ہے جس سے علاقے کے لوگ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
محکمہ پبلک ہیلتھ کی زیر نگرانی شمسی توانائی سے چلنے والے ایک واٹر سپلائی سکیم
پر کام جاری تھا اس کے بارے میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ یہ منصوبہ چھ ماہ میں
مکمل ہوگا اب ڈیڑھ سال ہوگیا مگر ابھی تک وہ مکمل نہیں ہوا اور اب تو کام بھی رکا
ہوا ہے۔
شاہ میراندہ کے عوام نے وزیر اعلیٰ
اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ WSU کے خلاف انکوائری کرے کہ وہ پانی کی کمی کا بہانہ
بناکر شاہ میراند ہ کو پچھلے دو سالوں سے پانی سے محروم کیا ہوا ہے مگر ساتھ والے
گاؤں سینجال کو دو انچ کے پائپ میں دن رات پانی دی جاتی ہے جس کی ثبوت بھی موجود
ہے مگر یہ کھلا تضاد کیوں ہے؟