وادی لاسپور میں 1931 کا بنا ہوا لکڑی کا جھولا پُل کو از سر نو تعمیر کیا جائے

چترال(گل حماد فاروقی) وادی لاسپور میں رامن  گاؤں میں دریائے چترال پر لکڑی کا جھولا پُل انتہائی حستہ حالت میں بھی اہلیاں علاقہ کے لیے واحد امد و رفت کا ذریعہ ہے۔ مگر 2015 میں سیلاب کی وجہ سے اس پل کو بہت نقصان پہنچا اس کے آس پاس  زمین  کی کٹائی کی وجہ سے پل  کسی بھی وقت دریا برد ہوسکتا ہے ۔ 
ایک مقامی شحص سلیمان کے مطابق یہ پُل 1931 میں بنگال  کے ایک صوبیدار میجر آفتاب احمد خان کے زیر نگرانی برطانوی دور حکومت میں تعمیر ہوا تھا ۔اس صوبیدار میجر کا مزار بھی یہی موجود ہے۔
خوش خان ایک مزدور کار آدمی ہے جو روزانہ اس پُل سے گزرتا ہے اس کا کہنا ہے جب سردیوں میں برف باری ہوتی ہے تو اس پُل سے گزرتے ہوئے سکول جانے والے بچوں کے لیے انتہائی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔


یہ پل شندور روڈ پر قدرے نیچے جاکر دریا پر بنا ہوا ہے مگر جب اس پر کوئی موٹر سائکل سوار گزرتا ہے تو پورا پل ہچکولے کھاتے ہوئے جھومتا ہے اور راہگیروں کا سر چکرانے لگتا ہے۔ 
اس گاؤں کے ایک اور خاتون بی بی جان نے کہا کہ ہم کھیتوں سے جلانے کی لکڑی، گھاس وغیرہ جب لاتے ہوئے اس پل سے گزرتے ہیں تو ہمیں بہت ڈر لگتا ہے کیونکہ پل بہت پرانا ہے اور اس پر پیدل گزرتے ہوئے ہل رہا ہے جس سے ہمیں چکر آنے لگتا ہے اور دریا میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ  پل تین دیہات کے لو گوں کی آمد ورفت کا واحد ذریعہ ہےاور سردیوں میں اپنے مریضوں کو کندھوں پر اٹھاکر جا نا پڑتا ہے کیونکہ برف باری کی وجہ سے پھسل کر دریا میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
مقامی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ دریا پر پاکستان بننے سے پہلے اس پل کی جگہ جدید آر سی سی پل بنایا جائے نیز اس سڑک اور پل کو کشادہ بھی کیا جائے تاکہ اس پر چھوٹی گاڑیاں بھی گزر سکے۔

Print Friendly, PDF & Email